صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


غالب افسانہ

بینی مادھو رسوا

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

اقتباس

میں نسلاً راجپوت اور مولداً نظام آباد، ضلع اعظم گڈھ، کا ہوں۔ اعظم شاہ نے اعلیٰ حضرت مہابلی خلد آشیانی کے وقتوں میں شہر اعظم گڈھ آباد کیا تو میرے اجداد علاقۂ پنجاب سے اٹھ کر یہاں آ بسے۔ ہم لوگ ہے ہے بنس کے چندر بنسی راجپوت ہیں۔ جنگ و جدل کے علاوہ علم و ہنر بھی ہمارے گھرانے کی پہچان رہا ہے۔ فردوس مکانی صاحب قران ثانی کے عہدِ مبارک میں ہمارے خاندان میں زمین و املاک کے جھگڑے اٹھے تو ہمارے ایک بزرگ نے ناراض ہو کر علیحدگی اختیار کر لی، اور یہ علیحدگی اتنی شدید ہوئی کہ انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ان کے اخلاف بھی مسلمان رہے، اور بحمد للله اب بھی کہیں جو احیا ہیں، مذہبِ اسلام کے پیرو ہوں گے۔ میرے جد اعلیٰ اپنے قدیمی مسلک پر رہے، اور میں بھی ایشور کی کرِپا سے اسی پر قائم ہوں۔

    اپنے مسلمان بھائیوں سے ہمارا ربط آہستہ آہستہ پھر استوار ہوا تو ملنا جلنا، ریت رسم، یہاں تک کہ ایک آدھ بار تو شادی کے بھی مراسم بن گئے۔ ایسے موقعوں پر تلوار تک چلنے کی نوبت آ گئی، لیکن مرورِ ایّام کے ساتھ سب  برابر ہو گیا۔

    ہمارے دادا نے اسلحہ سازی کا کام شوقیہ اختیار کیا۔ وہ کہتے تھے کہ انسان کو اپنے اسلحہ کے بارے میں اتنا اور ویسا ہی علم و اعتماد رکھنا چاہیے جیسا اپنی اولاد یا بیوی کے بارے میں ہوتا ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ اپنے اسلحہ خود بنانے سے بہتر کوئی طریقہ اپنے ہتھیار کو جاننے اور سمجھنے کا نہیں ہے۔ اوّل اوّل تو وہ قدیم انداز کے تیغے اور جمدھر اور شیر پنجے ہی بناتے تھے، لیکن ایک عیسائی پادری کے طعنہ دینے پر کہ تم ہندوستانی لوگوں کو ہمارے ہتھیار بنانا مشکل ہے، انھوں نے طرح طرح کی قرابینیں، دگاڑے اور لمچھڑ بھی بنانے شروع کر دیے۔ اور اس فن میں وہ اس قدر کامیاب ہوے کہ کمپنی بہادر کے سپاہی اور اطراف کے ڈکیت، دونوں ہی بڑی قیمتیں دے کر ان کے لمچھڑ مول لے جاتے تھے۔ میرے باپ کا زمانہ آتے آتے ہمارا پیشہ اسلحہ بازی کے بجائے اسلحہ سازی ہو گیا۔

    ہمارے قصبے نظام آباد کے بعض تال تلیّوں میں ایک خاص قسم کی سیاہ مٹی نکلتی ہے۔ اس سے برتن بہت اچھے بنتے ہیں، اور دور دور دساور کو جاتے ہیں۔ ایک کمہار کا بیٹا میرا دوست بن گیا تو میں نے بابوجی سے چوری چھپے اس کا فن بھی سیکھ لیا۔ کیا معلوم تھا کہ ایک دن اس ہنر سے مجھے کچھ تمتّع بھی ہو سکے گا۔

    ہمارے گھرانے کی دونوں شاخیں اعظم شاہ کی اولادوں اور اس طرح آل تیمور کے فرماں رواؤں کی خدمت کو اپنا دین و ایمان جانتی تھیں۔ بکسر کی جنگ میں بکسریے تو دونوں طرف سے لڑے تھے، کہ کچھ کرائے کے ٹٹوؤں کے طور پر کمپنی بہادر کے جھنڈے تلے تھے، اور کچھ ایسے تھے جو حضور فیض گنجور اعلیٰ حضرت شاہ عالم ثانی شہنشاہ ہند، اور نواب وزیر کی فوجوں میں تھے۔ لیکن ہمارے گھرانے کے جتنے لوگ اس جنگ میں شریک تھے، کیا ہندو کیا مسلمان، سب کے سب اعلیٰ حضرت کے لوائے سطوت و سلطنت کے ہی تلے تھے۔ اس جنگ میں ہمارے دونوں گھرانوں کے اکیس سورماؤں نے جامِ شہادت نوش کیا۔

    بکسر کے بعد بھی ہماری وفاداری اعلیٰ حضرت اور نواب وزیر سے رہی۔ لیکن خود اعلیٰ حضرت جنت ماب شاہ عالم ثانی نے بِہار اور بنگال کی دیوانی کمپنی بہادر کو سونپ دی، اور نواب وزیر اس کے چند برس بعد الله کو پیارے ہوے۔ جنت مآب اپنی تمام خوبیوں اور حکمت عملیوں کے باوجود انگریز کے جال سے نہ نکل سکے۔ مراٹھا سردار مہاداجی نے انھیں الہٰ آباد سے نجات دلائی اور ان کا وکیل مطلق بن کر راج کرتا رہا۔ ذوالفقار الدولہ نجف خاں کی موت کے بعد جنت آرام گاہ ملکی سیاست کے نقشے پر بے اثر ہو گئے۔ مراٹھا کے مرنے کے بعد انگریز کو پھر موقع ملا تو اس نے اعلیٰ حضرت کو اپنی "حفاظت" میں لے لیا۔

    لکھ لُٹ نواب وزیر آصف الدولہ مبرور عدن مقام کے زمانۂ سعادت تک تو ہم اودھ کے زیرِ سایہ اور زیرِ نگیں رہے۔ لیکن وزیر علی خاں مغفور کو ہٹا کر مرزا جنگلی مرحوم جنت آرام گاہ کو مسند وزارت دلانے میں خان علامہ اور دوسروں نے جو دکھ اُٹھائے اور اُٹھوائے، ان میں اودھ کے آدھے علاقے کا تحویلِ وزارت سے نکل کر انگریز کے چنگل میں جانا بھی تھا۔ اس طرح ہم لوگ لفظاً و معناً قیدِ فرنگ میں آ گئے۔ دلوں میں دھیمی آگ سلگتی رہی، لیکن ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔

    خان علامہ اور میرے دادا میں پرانی ملاقات تھی، اور وجہ ملاقات وہی اسلحہ سازی۔ علامہ موصوف کو میرے دادا کی بنائی ہوئی لمچھڑیں بہت پسند تھیں۔ وہ انھیں منگوا کر اپنے انگریز دوستوں کی نذر کرتے تھے۔ ۱۸۱۰ء میں اپنے دادا اُستاد ملّا سابق بنارسی کے انتقال پر تعزیہ دینے کے لیے بنارس تشریف لے جاتے وقت خان علامہ اپنے بعض اعزا سے ملنے اعظم گڈھ بھی آئے تھے۔ دادا نے انھیں حسبِ ذیل سابق اپنی بنائی ہوئی ایک لمچھڑ اور ایک قرابین پیش کی۔ لیکن اس بار انھوں نے تھوڑی رنجش کا بھی اظہار کیا کہ خان علامہ نے سعادت علی خاں کو نواب وزیر بنوانے میں یہ خیال نہ کیا کہ الہ آباد سے لے کر بریلی تک کتنا بڑا علاقہ انگریز کے ہاتھ میں دلوا دیا۔ خان علامہ نے فرمایا، "بھوانی سنگھ، وہ چند ضلعے دے کر میں نے اودھ کو بچا لیا۔ اب کوئی دن جاتا ہے کہ اودھ  کیا، سارا ملک ہی کلکتہ کو دہلی مان لے گا۔"

    میری پیدائش ۱۸۴۰ء کی ہے۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ دستور کے مطابق مجھے آلاتِ حرب و ضرب کے ساتھ قلم کا بھی ہنر سکھایا گیا۔ میں نے گھر پر فارسی، عربی اور تھوڑی بہت ریاضی سیکھی۔ پھر مولانا فاروق چریاکوٹی کے ایک شاگرد کے مدرسے میں باقاعدہ تعلیم کے لیے بٹھا دیا گیا۔ میری پیدائش سے تین سال پہلے ۱۸۳۷ء میں اعظم گڈھ میں کچھ پادریوں نے ایک انگریزی اسکول کھولا تھا، ویزلی اسکول کے نام سے۔ وہ اب بھی قائم ہے۔ میرے والد کے ایک دوست جو کمپنی بہادر کی نوکری کر چکے تھے، مصر ہوے کہ بینی مادھو کو انگریزی پڑھواؤ، کہ اسی میں اب کاروبار ملکی و مالی و فوجی چلے گا۔ ان کی روز روز کی ضد سے تنگ آ کر میرے قبلہ نے میرا نام وہاں لکھا ہی دیا۔ اُس وقت میری عمر کوئی دس برس کی تھی۔


٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                       ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول