صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


غیرت، بے غیرت

ناولٹ/طویل کہانی

آمنہ احمد

 لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                             ٹیکسٹ فائل

                    اقتباس

ہمیشہ کی طرح اس نے وہ خبر پڑھ کر سوچا تھا "مرد غیرت کے نام پر قتل کرتا ہے ، عورت کیوں نہیں!"

"کیا عورت میں غیرت نہیں ہوتی؟ کیا عورت کی شرم و حیا اسے با غیرت ہونے سے روک دیتی ہے ؟" اخبار ایک طرف رکھ کر اس نے سامنے رکھی کتاب پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ اس کے ساتھ ہر بار ایسا ہی ہوتا تھا۔۔۔۔ جب بھی غیرت کے نام پر کسی لڑکی کے قتل، ونی، یا پنچایت کے فیصلے پر آبرو ریزی کی خبر پڑھتی تھی تو اس کے اندر تک بے چینی اتر جاتی تھی اور پھر کئی بے خواب راتیں اس کا مقدر بنتی تھیں۔

"جو مرد غیرت کے نام پر یہ سب کرتے ہیں، ان کے گھر کی عورتیں یہ سب کیسے برداشت کرتیں ہیں۔۔۔۔ چلو ماں بہنوں کا تو خون کا رشتہ ہے ، مگر ایک بیوی یہ کیسے برداشت کرتی ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ایسے باتیں سوچ سوچ کر آج بھی اس کا دماغ شل ہو رہا تھا اور آنسو کہیں اندر ہی اندر گر رہے تھے ۔

٭٭


"بس لالا اب تاریخ دے دے ۔ پڑھ لیا ثریا نے جتنا پڑھنا تھا!" اسے اپنی ہونے والی ساس جنت بی بی کی آواز اندر تک آ رہی تھی۔ دل میں جہاں خوشگوار احساسات جنم لے رہے تھے ، وہیں اپنا ہیلتھ وزیٹر کے طور پر کام کرنے کا خواب پورا نہ ہونے کا بھی ملال تھا۔ "مگر ابا اب اور انتظار نہیں کر سکتا، اماں زندہ ہوتی تو اور بات تھی۔۔۔۔" اس نے پھونکنی سے ایک بار پھر سے آگ جلانے کی کوشش کی۔ دھواں آنکھوں میں بھر رہا تھا۔ جانے کا وقت آ گیا تھا!

٭٭


"ثریا او ثریا، کہاں رہ گئی ہے ، ابھی تک ناشتہ نہیں بنا!" اکرم کی تیز آواز نے اس کے ہاتھوں کی رفتار بھی تیز کر دی تھی۔ جلدی جلدی چھنی میں دہی پر شکر ڈال کر اس نے چنگیر میں رکھے پراٹھے پر رکھی اور دوسرے ہاتھ سے چائے کا مگ اٹھا کر برآمدے کی طرف چل دی۔ اکرم نے اپنی مونچھوں کو وٹ دیتے ہوئے ترچھی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔ شروع شروع میں تو اسے اکرم کی یہ بیباکی اچھی لگتی تھی مگر اب سب کے درمیان میں بیٹھ کر اس کا ایسے دیکھنا اسے کبھی کبھی پریشان کر دیتا تھا۔ وہ اس کے سامنے ناشتہ رکھ کر واپس چولہے کے آگے جا بیٹھی۔

"اچھا میں اب چلتا ہوں۔۔۔۔سردار صاحب انتظار کر رہے ہوں گے ۔" اکرم کندھے پر پٹکا ڈال کر باہر کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ ثریا نے اس کے جانے کے بعد حسب معمول صحن میں جھاڑو دی اور پھر کپڑے دھونے بیٹھ گئی۔

"لالا تجھے ایسے دیکھ لے تو۔۔۔۔۔۔۔" اس کی دس سالہ نند مسرت اس کی گیلی قمیض جو اس کے جسم سے چپک گئی تھی، کی طرف اشارہ کر کے ایک آنکھ دبا کر ہنسی اور بڑی ادا سے اپنا لال دوپٹہ گلے میں ڈالا۔ ثریا کے ماتھے پر پسینہ آگیا تھا۔

"مسرت۔۔۔۔!" اس نے اونچی آواز میں گھرکنے والے انداز میں تنبیہ کی۔

"نی۔۔۔۔ مسرت کیا۔۔۔۔؟" اس کی ساس بھری چوڑیوں والے ہاتھ میں مسواک پکڑے ، اپنے کمرے کے دروازے میں کمر پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔

"کچھ نہیں میں تو۔۔۔۔۔" اس کی آواز لڑکھڑا گئی تھی۔ اتنے دنوں میں اسے یہ تو بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ سسرالی رشتے سسرالی ہی ہوتے ہیں۔ وہ خاموشی سے کپڑے پھیلانے لگی۔ اندر کمرے سے کسی پنجابی گانے کی شوخ آواز باہر تک آ رہی تھی۔

کھانا پکاتے اور تندور تا کر روٹیاں پکانے تک اسے ظہر کا وقت ہو گیا تھا۔ سب کے کمروں میں الگ الگ کھانا پہنچا کر وہ نماز پڑھنے چل دی۔ نماز سے فارغ ہو کر اسے کپڑوں کا خیال آیا تھا۔ وہ جلدی جلدی سوکھے کپڑے اتارنے لگی اور ساتھ میں تہیں بھی لگا کر چار پائی پر رکھتی جا رہی تھی۔

"یہ سوٹ کا کاسنی دوپٹہ کہاں گیا۔۔۔۔! اس نے ادھر ادھر نگاہ ڈالی۔ دوپٹے کا ایک کونا پچھواڑے جاتی گلی کی نکڑ پر نظر آ رہا تھا۔ وہ اٹھانے کے لئے اس طرف آ گئی۔ مکان کی یہ طرف سائے میں تھی اور باہر لگی بیری بھی اسے نیم تاریکی میں رکھتی تھی۔ اسے گلی میں ایک سایہ سا نظر آیا۔ وہ ٹھٹھک گئی!

کمرے کی گلی میں کھلنے والی بند کھڑکی سے اس کے جیٹھ کی سرگوشیوں کی آواز آ رہی تھی اور ساتھ میں جیٹھانی کی دبی دبی ہنسی اور چوڑیوں کی کھنک کی بھی۔ گلی میں دبکا وہ سایہ کھڑکی سے ایک آنکھ لگائے بیٹھا تھا۔ اس کا تنفس تیز تھا اور اسے اپنے لال دوپٹے کا کوئی ہوش نہ تھا۔ ثریا نے آہستگی سے اپنا دوپٹہ اٹھایا اور دبے پاؤں پلٹ گئی۔۔۔۔

"یا اللہ رحم۔۔۔۔" اس نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا اور خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ کمرے میں آ کر اس نے کھڑکی کے لکڑی کے پٹوں کے درمیان درزوں کو غور سے دیکھا۔ اس کے کمرے کی ایک کھڑکی باہر برآمدے میں اور دوسری پچھواڑے میں کھلتی تھی۔۔۔۔وہ چند لمحے کچھ سوچتی رہی، پھر اپنی جہیز کی پیٹی جو کمرے کے ایک کونے میں پڑی تھی، اس کو کھول کر کچھ ڈھونڈنے لگی۔

اکرم شام میں دیر سے آتا تھا۔ اس کے پاس کافی وقت تھا۔ وہ مطمئن ہو کر سلائی مشین پر جھک گئی۔

"ارے یہ کیا۔۔۔۔" رات میں جب اکرم کھانا کھا کر پلنگ پر لیٹا تو اس کی نظر کھڑکیوں پر پڑی۔

"بس چادروں کا کپڑا فالتو پڑا تھا اور میرے پاس دوپہر میں وقت بھی تھا۔ سوچا پردے ہی سی کر لگا دوں۔" ثریا نے مسکرانے کی بھر پور کوشش کی۔

"فیشن تو تیرے سارے شہرنوں والے ہیں۔۔۔۔" اکرم نے اسے بے ڈھنگے پن سے اپنی طرف کھینچا تھا۔ ثریا کو لگا تھا جیسے پچھواڑے میں کسی نے غصے میں زور سے دیوار پر ٹھوکر ماری ہو، مگر اب وہ مطمئن تھی!

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں  

   ورڈ فائل                                             ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں  مشکل؟؟؟

یہاں  تشریف لائیں ۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں  میں  استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں  ہے۔

صفحہ اول