صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


 ۱۸۵۷ء اور اُردو شاعری

پروفیسر گوپی چند نارنگ

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

 ۱۸۵۷ء اور اُردو شاعری

ہم اس سے بحث کر چکے ہیں کہ انیسویں صدی کے نصف اول کی اردو شاعری میں حب وطن کے جدید تصور کی تلاش عبث ہے۔ اس زمانے میں وطنیت کا تصور آج کے تصور سے بالکل مختلف تھا۔ یہ جدید تصور انیسویں صدی کے اواخر میں نئی تاریخی تبدیلیوں کے نتیجے میں نشاۃ الثانیہ کے اثرات کے نتیجے کے طور پر آیا۔ اس کے برعکس وطنیت کا قدیم تصور اپنے زمانے کے مخصوص تاریخی عوامل اور سماجی قوتوں کا پیدا کردہ تھا۔ اس کی بنیاد اتنی سیاسی یا معاشی نہیں جتنی اخلاقی اور مذہبی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں انفرادیت زیادہ تھی اور اجتماعیت کم۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تصور ایثار، قربانی، جرأت اور مردانگی کے اعلیٰ جذبات سے مملو تھا۔ ہندوستان کا وحدانی تصور اس زمانے میں فاصلوں کی دوری، رجواڑوں کی باہمی رقابت، آپسی نفاق اور طوائف الملوکی کے باعث ذہن میں آہی نہیں سکتا تھا۔ لیکن جوں جوں انگریز اس ملک پر اپنا قبضہ و اقتدار بڑھاتے گئے اور ان کے مفاد عوامی مفاد سے ٹکرانے لگے ، غلامی اور مظلومیت کا احساس رفتہ رفتہ ہندوستان کے تمام طبقوں میں قدر مشترک کی شکل اختیار کر گیا۔ اس زمانے کی اردو شاعری میں بھی اس کے اثرات جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ کہیں کوئی مصحفی، کوئی جرأت، کوئی مومن، ان مخفی دلی جذبات کو الفاظ کا جامہ پہنا دیتا ہے۔ لیکن چونکہ اس زمانے میں آزادی کا تصور ابھی مذہبی یا اخلاقی بنیادوں پر تھا، اس لیے عام طور پر انگریزوں کی مخالفت اس بنا پر ہوئی کہ ان کی محکومیت میں دین اور مذہب خطرے میں ہے۔ اضطراب کی ان چنگاریوں کو جب شجاعت اور دلیری کے قدیم اوصاف کی ہوا ملی تو یہ ۱۸۵۷ میں جنگل کی آگ کی طرح چاروں طرف اس سرعت سے پھیل گئیں جس کا انگریزوں کو خواب و خیال تک نہیں تھا۔ وطنیت کی یہ تحریک جذباتی اور انفرادی سر چشموں سے پھوٹی تھی، اس لیے اس کا تخریبی پہلو زیادہ نمایاں رہا۔ انگریزی عمل داری کا خاتمہ کرنے اور سرکاری اداروں کی تباہی و بربادی کی حد تک اس نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ لیکن جہاں تک انقلاب کے تعمیری حصّے کا تعلق ہے ، اجتماعی جذبات کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ پہلو بالکل نامکمل رہ گیا اور جن علاقوں پر دیسی سپاہ قابض ہو گئی تھی، ان کی شیرازہ بندی بھی ٹھیک طور پر نہ ہو سکی، جس وجہ سے بعد میں انگریز وہاں پھر متصرف ہو گئے۔

اس زمانے کی اردو شاعری تاریخی قوتوں کے اس تصادم اور ولولوں کی اس کشاکش کی آئینہ دار ہے۔ اس ضمن میں اردو شاعروں نے حب وطن کے جن جذبات کا اظہار کیا ہے ، ان کا صحیح تجزیہ کرنے کے لیے ان تاریخی قوتوں کو نظر میں رکھنا بہت ضروری ہے جو اس وقت کارفرما تھیں۔

لارڈ کلایو سے لارڈ ڈلہوزی تک کمپنی کے جوڑ توڑ سے ثابت ہوتا ہے کہ انگریز کسی نہ کسی بہانے سارے ہندوستان پر قابض ہونا چاہتے تھے۔ جس کام کی ابتدا جنگ پلاسی سے ہوئی تھی، اس کی انتہا بکسر کی لڑائی پر ہوئی۔ اس کے بعد نہ صرف اودھ کا نواب وزیر انگریزوں کے ہاتھ میں کھلونا بن گیا بلکہ مغل تاجدار شاہ عالم بھی ان کے زیر اقتدار آ گیا۔ ۱۸۳۷ میں بہادر شاہ ظفر تخت نشیں ہوئے تو گورنر جنرل لارڈ الن برا نے انھیں علانیہ قلعہ کی سکونت ترک کر دینے اور شاہی خطابات سے دست بردار ہو جانے کو کہا۔ مرزا فخرو کے انتقال کے بعد مرزا قویش کو ولی عہد ہی اس شرط پر بنایا گیا کہ بہادر شاہ کی وفات کے بعد ان کے لیے صرف خطاب شہزادہ باقی رہے گا۔ پنشن سوا لاکھ کے بجائے پندرہ ہزار ہو گی اور قلعہ خالی کر دیا جائے گا۔ گویا آل تیمور کا خاتمہ ہر لحاظ سے ایک فیصلہ شدہ بات تھی۔

ادھر کمپنی دیسی ریاستوں پر بھی یکے بعد دیگرے ہاتھ صاف کر رہی تھی۔ وارن ہیسٹنگز بنگال، بنارس اور روہیل کھنڈ کو خاک میں ملا چکا تھا۔ ولزلی نے میسور، پونہ، ستارا اور کئی دوسری ریاستوں کو تختہ مشق بنایا۔ انگریزوں کی ان دست درازیوں کے خلاف راجوں ، نوابوں اور جاگیرداروں کے دلوں میں شدید نفرت پھیل رہی تھی۔ ڈلہوزی کی بدعنوانیوں نے اسے شدید تر کر دیا۔ سلطنت کی حدود بڑھانے کے لیے کمپنی دیسی حکمرانوں کو معمولی معمولی بہانوں پر برطرف کرنے لگی اور ان کی پنشنیں ضبط کی جانے لگیں۔ ۱۸۴۹ء میں انگریز پنجاب پر بھی قابض ہو گئے۔

معاشی استحصال کی حالت یہ تھی کہ کمپنی نے دیسی صنعت کو بالکل تباہ کر دیا تھا۔ تجارت کساد بازاری کا شکار تھی اور کسانوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔

سماجی سطح پر بھی ہندوستانیوں کا خطرہ کچھ ایسا بے جا نہ تھا۔ انگریز سارے ہندوستان کو عیسائی بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ اس کے نتیجے کے طور پر مسلمانوں میں اصلاحی تحریکیں شروع ہو گئی تھیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بعد ان کے کام کو ان کے عزیزوں اور رفیقوں نے جاری رکھا۔ مولوی احمد شاہ مدراسی اور مولانا لیاقت علی نے اس سلسلے میں مزید خدمات انجام دیں اور شمالی ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں اہم حصہ لیا۔

ادھر نانا راؤ پیشوا اور عظیم اللہ دیسی ریاستوں میں خفیہ سازش کا جال بچھانے لگے۔ بنگال میں علی نقی خاں فقیروں اور سنیاسیوں کے ذریعے فوجیوں کو بھڑکا رہے تھے۔ چھاؤنیوں میں رات کو خفیہ جلسے ہوتے تھے اور ۱۸۵۷ء  کے آغاز ہی میں آتش زدگی کی اکا دکا وارداتیں شروع ہو گئی تھیں۔ حتیٰ کہ چربی لگے ہوئے کارتوسوں کا بہانہ پا کر فوجیوں کی نفرت کا لاوہ ۱۰! مئی کو میرٹھ چھاؤنی سے پھٹ پڑا اور چند ہی دنوں میں بغاوت کی یہ آگ سارے شمال وسطی ہندوستان میں پھیل گئی۔ لیکن چونکہ بغاوت پوری طرح منظم نہ تھی، انگریزوں کو تیاری کا موقع مل گیا۔ ایران سے صلح ہو جانے کی وجہ سے ہرات سے انگریزی فوجیں فوراً لوٹ آئیں۔ چین کو جانے والے انگریزی دستے بھی کلکتے میں روک لیے گئے۔ ساتھ ہی پنجاب نے انگریزوں کو جو کمک پہنچائی اس نے تو باغیوں کی کمر ہی توڑ کے رکھ دی۔ انگریزوں نے سکھوں اور مغلوں کی دیرینہ عداوت کا پورا فائدہ اٹھایا اور حکمت عملی سے کام لے کر سکھوں کو باغیوں سے الگ رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔ چنانچہ ۱۸  ستمبر کو دہلی پر دوبارہ انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔

الٰہ آباد میں بغاوت کے بانی مولوی لیاقت علی،  (۱) لکھنؤ میں مولوی احمد شاہ، کانپور میں نانا صاحب اور جھانسی میں رانی لکشمی بائی تھیں۔ لکھنؤ میں نابالغ شہزادے برجیس قدر کو مسند نشیں کیا گیا اور ملکہ اودھ حضرت محل نگراں مقرر ہوئیں۔ دسمبر ۱۸۵۷ء سے فروری ۱۸۵۸ء تک انگریزی فوجیں تانتیا ٹوپے اور رانی لکشمی بائی کے ساتھ معرکوں میں مصروف رہیں۔ مارچ میں لکھنؤ پر تیسرا حملہ ہوا اور باغیوں کی پھوٹ کی وجہ سے انگریز لکھنؤ پر دوبارہ قابض ہو گئے۔

اس کے بعد باغی سردار بریلی میں جمع ہوئے ، یہاں بھی شدید جنگ ہوئی اور باغی ہار گئے۔ جون ۱۸۵۸ میں مولوی احمد شاہ مدراسی اور رانی لکشمی بائی دونوں مارے گئے۔ گو نانا صاحب اور ان کے ساتھی اس کے بعد بھی انگریزی فوجوں پر چھاپے مارتے رہے ، لیکن دراصل بریلی کی شکست کے بعد باغیوں کا زور ٹوٹ گیا اور ان کے بچے کھچے رہنما نیپال کے جنگلوں میں روپوش ہو گئے۔ بہادر شاہ ظفر پر دہلی میں مقدمہ چلا گیا اور اکتوبر ۱۸۵۸ء میں انھیں جلاوطن کر کے رنگون بھیج دیا گیا۔

اردو کے اکثر شعرا ۱۸۵۷ء کی آویزش و پیکار کی زد میں بری طرح آئے۔ ان میں سے بعض نے عملی طور پر بھی اس جنگ میں حصہ لے کر اپنی وطنیت کا حق ادا کیا۔ اردو کے یہ شاعر اگرچہ کسی ملکی یا منظم قومی جذبے سے تو آشنا نہ تھے ، لیکن    اپنی سلطنت کے جاتے رہنے سے ناخوش ضرور تھے اور غیرملکی انگریزی حکومت کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ کمپنی نے جس وقت ہندوستان میں اپنی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کرنا شروع کیا، اردو شاعری ابھی تصوف کی آغوش میں تھی اور ہر قسم کے جذبات کسی نہ کسی حد تک روحانی انداز میں ادا کیے جاتے تھے۔ اس کے باوجود اس زمانے میں بھی انگریزوں کے خلاف کہیں کہیں رمز و ایما کے پردے میں تو کہیں صاف صاف واقعاتی سیاسی اظہار خیال کی مثالیں مل جاتی ہیں۔

جنگ پلاسی کے موقع پر نواب سراج الدولہ کی شہادت ایک قومی حادثہ تھی۔ درد مندوں کے دل پر اس سے جو گزری راجہ رام نرائن موزوں کا یہ شعر اس کی نہایت موثر ترجمانی کرتا ہے  :

غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی

دوانا مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری

بکسر کی لڑائی کے بعد نواب وزیر انگریزوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن گئے۔ کمپنی نے جنگ کا منہ مانگا تاوان لیا، اودھ کا بھی کچھ علاقہ چھین لیا۔ اس کے علاوہ انگریزی فوجیں بھی اودھ میں تعینات کر دیں جن کے خرچ کا بوجھ نواب وزیر کو برداشت کرنا پڑتا تھا۔ نواب بے چارے بے بس تھے اور انگریز جو چاہتے منواتے اور جو چاہتے کرتے تھے۔ اغلب ہے کہ جرأت نے یہ شعر انھیں حالات سے متاثر ہو کر کہے ہوں :

کہیے نہ انہیں امیر اب اور نہ وزیر

انگریزوں کے ہاتھ ہیں قفس میں اسیر

جو کچھ وہ پڑھائیں سو یہ منہ سے بولیں

بنگالے کی مینا ہیں یہ یورپ کے امیر

اسی طرح ہندوستان کے معاشی استحصال پر مصحفی نے یہ شعر اتفاقاً نہیں بلکہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر کہا ہو گا  :

ہندوستاں کی دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی

کافر فرنگیوں نے بتدبیر کھینچ لی

انگریزوں کے خلاف ملک میں جو مذہبی اور نیم مذہبی تحریکیں پیدا ہوئیں ، شاہ ولی اللہ دہلوی کی اصلاحی تحریک ان میں سب سے اہم تھی۔ یہ مذہبی اصلاح کے ساتھ ساتھ انگریزوں کی بڑھتی ہوئی لہر کو بھی روک دینا چاہتی تھی۔ اردو شاعروں میں مومن اس تحریک سے خاص طور پر متاثر ہوئے۔ مومن، شاہ اسماعیل شہید کے ہم سبق اور مولوی سید احمد بریلوی کے مرید تھے۔ ان کے خیالات کا اثر مومن پر اتنا گہرا تھا کہ بقول خواجہ احمد فاروقی :  ’’وہ غیر ملکی حکومت کے خلاف جہاد کو اصل ایمان اور اپنی جان کو اس راہ میں صرف کر دینے کو سب سے بڑی عبادت سمجھتے تھے۔‘‘(۱)

مثنوی جہادیہ کے چند  شعر ملاحظہ ہوں :

عجب وقت ہے یہ جو ہمت کرو

حیات ابد ہے جو اس دم مرو

سعادت ہے جو جانفشانی کرے

یہاں اور وہاں کامرانی کرے

الٰہی مجھے بھی شہادت نصیب

یہ افضل سے افضل عبادت نصیب

الٰہی اگرچہ ہوں میں تیرہ کار

پہ تیرے کرم کا ہوں امیدوار

یہ دعوت ہو مقبول درگاہ میں

مری جاں فدا ہو تری راہ میں

میں گنج شہیداں میں مسرور ہوں

اسی فوج کے ساتھ محشور ہوں

مومن کے ایک فارسی قصیدے کے یہ اشعار بھی غور طلب ہیں  :

ایں عیسویاں بلب رساندند

جان من و جاں آفرینش

تا  چند بخواب ناز باشی

فارغ ز فغاں آفرینش

بر خیز کہ شور کفر برخاست

اے فتنہ نشاں آفرینش

ایک اور مقام پر کہتے ہیں :

مومن تمھیں کچھ بھی ہے جو پاس ایماں

ہے معرکہ جہاد چل دیجے وہاں

انصاف کرو خدا سے رکھتے ہو عزیز

وہ جاں جسے کرتے تھے بتوں پر قرباں

یہ اشعار بھی اس نفرت کی اڑتی ہوئی چنگاریاں ہیں :

مومن حسد سے کرتے ہیں ساماں جہاد کا

ترسا صنم کو دیکھ کے نصرانیوں میں ہم

کہتے ہیں یہ ہم چاٹ کے خاک اس میں ہوں گو خاک

پر اب تو زمیں بوس کلیسا نہ کریں گے

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول