صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
گیت بُنتا رہوں
اسحق ساجد
انتخاب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
نرم الفاظ کے پھُول چُنتا رہوں
مجھ کو پاگل زمانہ کہے تو کہے
میں تیری یاد میں گیت بُنتا رہوں
چاہے پھُولوں کے دامن میں شبنم نہ ہو
آپ کی آنکھ میرے لیے نم نہ ہو
اور دِل کے بھی لُٹنے کا ماتم نہ ہو
اپنے گیتوں پہ میں سر کو دھُنتا رہوں
گیت بُنتا رہوں، گیت بُنتا رہوں
کوئی اپنا نہ ہو، کوئی سپنا نہ ہو
چلتے رہنا ہی جیون ہو، تھمنا نہ ہو
راہ میں باغ پھُولوں کے آئیں مگر
صرف کانٹے ہی دامن میں چُنتا رہوں
گیت بُنتا رہوں، گیت بُنتا رہوں
بجلیاں سر پہ چمکیں کہ طوفان ہو
راہ بھی چاہے ویراں ہو، سنسان ہو
ریت کے بہتے دریا میں ڈُوبوں اگر
راگنی بارشوں کی بھی سُنتا رہوں
گیت بُنتا رہوں، گیت بُنتا رہوں
کوئی پیچھے بُرائی کرے، روک دو
کوئی ناداں خطائیں کرے، ٹوک دوں
کوئی کانٹے چُبھائے مجھے پھر بھی میں
نرم الفاظ کے پھُول چُنتا رہوں
گیت بُنتا رہوں، گیت بُنتا رہوں
غزل
ہم پہ پھینکے گئے ہر سمت سے پتھر کتنے
ہم سے پہلے بھی یہاں زخمی ہوئے سر کتنے
خُون میں ڈُوبے ہیں اس راہ میں آ کر کتنے
جل گئے آتشِ بارود میں پیکر کتنے
وہی ذلت ہے وہی کُفر وہی وحشی پن
دے گئے درسِ عمل یُوں تو پیمبر کتنے
تھے فقط دِل کی جگہ سینوں میں پتھر جن کے
ان درِندوں نے اُجاڑے ہیں بھرے گھر کتنے
کیا عجب گھر سے میں نکلوں تو نہ واپس آؤں
بھر دیئے دِل میں دھماکوں نے میرے ڈر کتنے
چاندنی جن کا تبسم تھا بدن جن کے گلاب
خاک میں مل گئے یاں حُسن کے پیکر کتنے
لعل و گوہر کی تمناّ میں گئی ہیں جانیں
قلزمِ غم میں ہوئے غرق شناور کتنے
تشنگی بجھ نہ سکی پھر بھی ہماری سا جد
ریگِ صحرا میں کہنے کو سمندر کتنے
٭٭٭