صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
گوہرِ شب تاب
عبداللہ ناظرؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
ابرِ غم دل سے اٹھا، آنکھ سے دریا برسا
ڈوب جانے کو تھی دنیا مری اتنا برسا
فصل کاٹی تھی کسانوں نے مگر دھوپ ڈھلے
ایسا لگتا تھا کہ کھیتوں میں بھی سونا برسا
اُڑ گیا طائرِ شب دُور اُفق کی جانب
صبح جب ہونے لگی نور کا دھارا برسا
کشتِ امید نظر آئی ہے سر سبز وہاں
کوئی بادل بھی جہاں تیرے کرم کا برسا
آسمانوں سے ہویدا نہیں ایسے آثار
ہم دعا کرتے ہی رہتے ہیں کہ برسا برسا
زندگی بھر نہیں ہم ہوش میں آنے والے
ساقیا اب نہ خدا کے لئے صہبا برسا
با نے جو کروٹ لی سر پھر گیا بوتل کا
ساغر کہیں لہرایا پیمانہ کہیں چھلکا
مستی میں جوانی کی کیا طرزِ خراماں ہے
ہوش اُسکو نہیں بالکل دامن کا نہ آنچل کا
ہر لمحۂ عشرت یوں بے فیض نظر آیا
جیسے کوئی سایہ ہو اڑتے ہوئے بادل کا
اپنی بھی سیہ بختی تعریف کے قابل ہے
جس طرح سجیلا پن اُن آنکھوں میں کاجل کا
ہر گوشہ گلستاں کا فردوس بداماں تھا
یہ واقعہ اب لیکن، ہے گزرے ہوئے کل کا
ناظرؔ یہ تغزل بھی اک ذوقِ تغزل ہے
یا ہرزہ سرائی میں، انداز ہے پاگل کا
برباد ہو چکی ہے مری کائناتِ شوق
کیا دیکھتا ہے غور سے ظالم نظر بچا
موجوں نے لا کے چھوڑا ہے ساحل کی ریت پر
میں ڈوبنے کو ڈوب گیا تھا مگر بچا
شاید یہی رواج ہے، ہر قتل گاہ میں
جو سرفراز ہو نہ سکا، اُس کا سر بچا
کب تک یہ عذرِ تنگیِ فرصت کروں قبول
دل کی تباہیوں سے مرے چارہ گر بچا
ناظرؔ جفائے اہلِ زمانہ کی قید سے
خود کو بچا خدا کے لئے عمر بھر بچا
٭٭٭