صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
’فرصتِ نگاہ‘ پر کچھ نگاہیں
مختلف ادباء
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
فرصتِ نگاہ… ایک جائزہ
___ڈاکٹر فہمیدہ تبسّم
سفرنامہ اردو ادب کی
خوب صورت اور دل چسپ صنفِ اظہار ہے۔ اس کا دوہرا پن نہ صرف دائرہ در دائرہ
پھیلے ہوئے اسفار کے اسرار منکشف کرتا ہے بل کہ مصنف کی ذات، محسوسات،
خیالات، مشاہدات اور تجربات کا آئینہ ہونے کا ثبوت بھی فراہم کرتا ہے۔ اگر
سفرنامہ نگار قادر البیان اور جزئیات کو یک جا کر کے کل کی بہترین تصویر
کشی پر کمال رکھتا ہو تو رشحاتِ قلم ایک گراں قدر فن پارے ایک صورت میں
ڈھل کر نہ صرف امر ہو جاتے ہیں بل کہ وقت خود ان لفظوں کا مول لگاتا اور
انھیں ابلاغ عطا کرتا ہے۔
ایک اچھا کہانی کار
ہمیشہ کام یاب سفر نامہ نگار یا روداد نویس ہو سکتا ہے کیوں کہ اسے عام سی
بات کو بھی دل کش پیرائے میں بیان کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ کہانی کاری کو
سفرنامہ نگاری میں منتقل کرنے کا خوب صوت تجربہ ہمیں پروفیسر اعظم خالدؔ
کی رودادِ سفر ’’فرصت نگاہ‘‘ میں دکھائی دیتا ہے۔
سرمد اکادمی اٹک سے ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کے وقیع مقدمے کے ساتھ شائع
ہونے والے اس سفرنامے میں دیسی و بدیسی زندگی کے سب ہی شوخ و مدھم رنگ
دکھائی دیتے ہیں۔
سفرنامے کی پہلی اہم خاصیت اس
کا اسلوبِ نگارش ہے۔ پیش لفظ کی پہلی سطر وہ کلید اوّل ہے جو پنجاب کے ایک
دور افتادہ علاقے کے مخصوص کلچر کا دروازہ کھولتی ہے۔ خود داری، مہمان
نوازی، کشادہ دلی اور وفا جیسی عظیم اقدار کے رنگوں سے سجے مقامی حجرے نہ
صرف تہذیبی مراکز کی حیثیت رکھتے ہیں بل کہ قصہ گوئی کے ضمن میں جس تاریخ
کے حامل ہیں ، ’’فرصت نگاہ‘‘ اس کا معتبر حوالہ ہے۔ مصنف نے اپنے پختہ کار
قلم میں وہی جادو اور وہی کمال رکھا ہے جو حجروں، چوپالوں کے قصہ گوؤں یا
عیش باغ لکھنو کے داستان طرازوں کا شعار تھا۔
پہلی پرواز سے واپسی کی اڑان تک قاری ’’مسافر‘‘ کے ہم راہ مسلسل محوِ سفر
رہتا ہے لیکن کہیں بھی تھکن کا احساس نہیں ہوتا۔ ’’مسافر‘‘ (مصنف نے اپنے
لیے یہی لفظ استعمال کیا ہے ) حسبِ منشا قاری کو دعوت سفر دیتا ہے۔ دیارِ
غیر کی سیر کراتے ہوئے یورپ کے چمکتے سونے کی حقیقت سے آشنا کراتا ہے۔
فرنگیوں کے دیس میں بابوں کے مزارات پر لے جاتا ہے، جامعات کی اندرونی
دنیا دکھاتا ہے، وداع و وصل کی جداگانہ لذتوں کے ذائقے چکھاتا ہے اور پھر
شام الم مطربہ کے نام کر کے کسی اگلے سفر کے لیے تازہ دم ہونے کی خاطر
پڑاؤ ڈال دیتا ہے۔
بہت خوب! جس سفر کا آغاز محمد
رفیع کی لے سے ہوا اس کا اختتام کسی رقاصہ کے رقص دل فریب پہ ہو تو تعجب
کی بات نہیں کہ مصنف نے روداد سفر کا انتساب ہی طلسمِ جمال کے نام کیا ہے
جو عکس و آہنگ سے بھی ہویدا ہے۔
’’فرصتِ نگاہ‘‘
کے مصنف کے ہاں عہدِ گزشتہ، عہد موجود ہم آویز نظر آتے ہیں۔ ہر خیال کسی
دوسرے احساس کی ڈور سے بندھا ہے۔ واقعات اور مشاہدات مربوط دکھائی دیتے
ہیں۔ شخصیات کے تقابلی جائزے ماضی اور حال کو روبرو کھڑا کر دیتے ہیں۔ ہم
سفر دنیا دار مولوی صاحب کی گفتگو مصنف کے علاقے کے ایک درویش امام مسجد
سے تعارف کا سبب بنتی ہے۔ شیخ مقصود سے ملاقات تصور کی ایک ایسی وادی میں
لے جاتی ہے جہاں اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے میں جنم لینے والا ایک انسانی
المیہ سامنے آ جاتا ہے، کہیں ماضی و حال کا یہ سنگم ہمیں گار لنگٹن سٹریٹ
سے واپس اس خیمے میں لے آتا ہے جہاں گلنار مقیم ہے۔ بازدید و بازگشت کی یہ
کیفیت سفرنامے کا نمایاں حسن بن کر ابھری ہے۔ زبان و بیان کی صحت کا خاص
خیال رکھا گیا ہے جو مصنف کے اردو ادب کا استاد ہونے کی دلیل ہے اور حرمت
لفظ سے آگہی کا حوالہ بھی ہے۔
٭٭٭