صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
فُرصتِ نگاہ
پروفیسر محمد اعظم خالد
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ہوا کے دوش پر
’’مینو
پلیز‘‘ ایئر ہوسٹس کی آواز نے مسافر کو چونکا دیا۔ ساتھ والی سیٹ پر ایک
بزرگ صورت باریش مردِ توانا تشریف رکھتے ہیں۔ گول مٹول نورانی چہرہ،
جسمانی پھیلاؤ نا قابلِ یقین، توند مبارک جسم سے اِ س حد تک باہر نکلی
ہوئی کہ آخری سِرے کو دستِ خویش سے چھونا امر محال، شانوں پر رکھا سر اقدس
گردن کے تکلف سے بے نیاز، کَلے میں دبے پان نے لبِ لعلیں کی سُرخی دو چند
کر رکھی ہے۔ عمر گزشتہ پینتالیس برسوں پر محیط مگر کثرت زہد و تقویٰ اور
بارِ علم نے حسنِ کلام میں وہ بزرگی پیدا کر رکھی ہے کہ مسافر کو عزیزم
اور برخوردار جیسے خطابات سے نوازتے ہیں حالانکہ مسافر کے گزرے سال و سِن
ان سے دس بارہ زیادہ نکلتے ہیں۔ قربان جاؤں جناب کے حسنِ کلام کے کہ اُن
کا عزیزم کہنا سماعتوں میں شیرینیاں گھول دیتا ہے۔ ایک عجیب طمانیّت کا
احساس ہوتا ہے۔ ماضی کے کئی رنگین دریچے کھلتے نظر آتے ہیں۔ دل بے ساختہ
پکار اُٹھتا ہے :
ع ابھی تو میں جوان ہوں
موصوف گجرات کے کسی دیہاتی مدرسے سے فارغ تھے۔ اب اپنا مدرسہ چلاتے
تھے۔ اور خطیب مسجد کی دُہری ذمہ داری قبول کر رکھی تھی۔ آغاز کلام تو
مینو کے لوازمات پر ہوا۔ اور جب مسافر نے انگریزی میں چھپے مینو کا ترجمہ
پڑھ کر سُنانا شروع کیا تو ماکولات کی ایک ایک جنس پر حضرت نے جس انداز
میں بات کی اور جو جو طبّی خواص بتائے مُسافر سن کر ان کے ذوقِ کام و دہن
پر اَش اَش کر اُٹھا۔ مگر بات جب مشروبات تک پہنچی اور مسافر نے بار کے
عنوان سنانا چا ہے تو موصوف نے لا حول پڑھ کر آگے چلنے کا حکم صادر
فرمایا۔ یہاں مسافر موصوف کے زہد و تقویٰ کا بھی تہِ دل سے قائل ہوا۔
مسافر کی خواہش تو تھی کہ جو دو اڑھائی گھڑیوں کا سفر ہے۔ اُس میں آنکھ
جھپک لے یا مَن کی دنیا میں جھانک کر گزری یادوں کی جوت جگا لے۔ مگر موصوف
نے اظہارِ علم کی خاطر زورِ خطابت کے وہ جوہر دکھائے کہ مسافر کو اپنی
علمی کم مائیگی کا شدّت سے احساس ہونے لگا۔ حضرت فرماتے تھے کہ ’’وہ گذشتہ
چند برسوں میں اپنی بہت سی اخلاقی ذمّہ داریوں سے سبک دوش ہو چکے ہیں۔
اپنے سر سے بہت سا بوجھ اُتار چکے تھے۔ اور اب پورا وقت خدمتِ دین اور
نجاتِ اُخروی کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ مسافر نے سبک دوش ہو جانے والی ذمّہ
داریوں اور اُترے بوجھ سے متعلق استفسار کیا تو فرمانے لگے۔ دائم المریض
والد جنت مکانی ہو چکے۔ مرحوم موصوف کے مستقبل کے بیشتر منصوبوں میں حارج
رہتے تھے۔ دو بیٹوں کا بار تھا۔ اہلِ بستی سے کافی ردّ وقدح کے بعد بڑے
بیٹے کو اپنا جانشین مقرر کرا لیا۔ وجہِ ردّ و قدح یہ تھی کہ اہلِ
بستی کو برخوردار کے کر دار سے متعلق کچھ اشتباہ تھا۔ چھوٹے بیٹے کے لیے
انگلینڈ سے رشتہ کی تلاش ہے۔ بل کہ ماشاء اللہ ! اللہ کریم کے فضل و کرم
سے جلد بشارت متوقع ہے۔ موجودہ دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ مگر دیکھیے
نا ! یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے۔ خیر یہ تو ثانوی کام
ہے ہمارا اصل کام تو دَر دَر بھیک مانگنا ہے۔ اشاعتِ خیر کے لیے چندہ
مانگنا۔ والدِ مرحوم درویش صفت تو تھے مگر عصری تقاضوں سے یک سر نا بلد۔
عمر بھر ٹوٹی پھوٹی مسجد میں درس و تدریس میں مشغول رہے۔ روکھی سوکھی کھا
کر گزارہ کر تے۔ اب ان کے اُٹھ جانے کے بعد میں نے اپنے ذہن رسا میں بنے
منصوبوں پر عمل درآمد کی ٹھانی۔ دامن پھیلایا تو دیوانگان شوق نے حد
سے بڑھ کر پذیرائی کی۔ ٹوٹی پھوٹی مسجد کہ جگہ بہت بڑا تدریسی بلاک بن چکا
ہے۔ کبھی آؤ نا ہمارے ہاں۔ مگر تم تو دنیا دار آدمی ہو۔ دین سے دور اور
اہلِ بصیرت سے نفور، اور ہاں دین سے یاد آیا یہ خاتون جو ہماری تمہاری
خدمت پہ مامور بار بار چکر لگاتی ہے۔ کوئی انگریز لگتی ہے۔ دیکھا ہے اس کے
جسم سے کیسی نا گوار بُو اُٹھتی ہے۔یہ ہے بے دینوں کی علامت۔ مسلمان سے
قربت میں تو ایک عجیب سی خوشبو کا احساس ہوتا ہے۔‘‘ عرض کیا۔ حضور اوّل تو
میں نے کسی نا گوار بُو کا احساس نہیں کیا۔ دوسرا مجھے خوشبوؤں میں تمیز
کا کچھ سلیقہ بھی نہیں۔ تیسری بات یہ کہ بارِ خاطر نہ ہو تو عرض کر دوں کہ
میں خوشبو یا بدبو کو مذہب سے منسلک کرنے کا کچھ اتنا قائل بھی نہیں۔
البتہ اتنا دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ خاتونِ محترم انگریز نہیں بلکہ مشرقِ
بعید کے کسی ملک سے ہیں۔ کوریا، جاپان وغیرہ اسی اثنا میں جب خاتون کمبل
لے کر ہماری نشستوں کی طرف تشریف لائیں تو مسافر نے بلا جواز قومیت سے
متعلق استفسار کیا، کہنے لگیں۔ ’’ملائیشیا سے ہوں۔ باپ کورین تھا۔‘‘ تو
گویا آپ بُدھسٹ ہیں۔‘‘جی نہیں ! الحمد للہ مسلمان ہوں۔ اور حاجن بھی
ہوں۔‘‘ مسافر نے ترجمہ کر کے حضرت کو اصل بات بتائی تو یک دم ان کا چہرہ
کھل اُٹھا۔ فرمانے لگے حاجن تو ہے اس سے پوچھو شادی شدہ ہے ؟ مگر چوں کہ
خاتون اپنی دکان بڑھا چکی تھی اور سوال بھی از حد غیر ضروری تھا۔ اس لیے
کئی سخن ہائے گفتنی نا گفتہ رہ گئے۔ چند لمحے پہلے بے دینی والی بُو کی
بات آئی گئی ہوئی اور موصوف ایک بار پھر اصل موضوع پر آ گئے۔ فرمانے
لگے۔’’عبادات اپنی جگہ، پابندی صوم و صلوٰۃ فریضۂ اوّل ہے۔ مگر نیکی کچھ
اور چیز ہے۔ ہم جیسے درویشوں کی متاع ہی کیا ہے۔ جو راہِ خدا میں خرچ
کریں۔ البتہ زبان تو پاس ہے۔ اور اہلِ خیر کا دَم غنیمت ہے۔ مگر اب اہلِ
خیر بھی کچھ کچھ دینی اقدار سے بے گانگی اختیار کر رہے ہیں۔ میں گزشتہ کئی
برس سے اسی کارِ خیر کے لیے بارِ سفر اُٹھا تا ہوں۔ شروع میں تو تارکینِ
وطن جھولیاں بھر بھر مالی امداد فرماتے تھے۔ رفتہ رفتہ اُن کے خلوص و محبت
میں کمی ہوتی گئی۔ اور اب کیفیت یہ ہے کہ حتی الوسع میل ملاقات سے بھی
گریزاں ہیں۔ کوئی اچانک ہاتھ آ گیا تو خیر ورنہ گھر پر ہوتے ہوئے بھی عدم
موجودگی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ عجیب بے دینی کا دور آ گیا ہے۔ استغفراللہ۔
اور ہاں عزیزم!تم نے کیا بتایا تھا کس شہر میں جا رہے ہو۔ ’’حضور میں نے
تو ابھی تک کسی شہر کا نہیں بتایا۔ اور نہ ہی کوئی خاص شہر میری منزل
مقصود ہے۔ مسافر کا تو کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ خانہ بدوش ہوتا ہے۔‘‘ماشاء
اللہ۔ ماشاء اللہ۔ تو برخوردار تمہیں تو پیسے کی بھی ضرورت ہو گی۔ جب گھر
بار نہیں تو شب باشی اور خوردو نوش کا بھی مسئلہ ہو گا۔ کیوں نہ میں تمہیں
ایک نسخۂ کیمیا بتاؤں۔ایسا کرو میں تمہیں دو مطبوعہ کاپیاں دیتا ہوں ایک
والدِ مرحوم کے مزارِ عالیہ کے لنگر شریف کی اور دوسری مدرسہ مفتاح العلوم
کی۔ اپنے قریبی حلقوں کے دَرِ دولت پر دستک دو۔ چوں کہ تمہاری پہلی بار ہو
گی۔ اہلِ خیر جوق در جوق تمھاری صدّا پر لبّیک کہیں گے۔ چھ آنے روپیّہ تم
رکھ لینا۔ کرایہ وغیرہ نکل آئے گا۔ چار پیسے بچ بھی جائیں گے۔ دس آنے
دربارِ عالیہ اور مدرسہ میں دینا یوں سمجھو کہ مفت جنت بھی ہاتھ آ گئی اور
ہاں ایک بات یاد رکھنا۔ تارکینِ وطن میں بھی وطنِ عزیز کی طرح دو گروہ
ہیں۔ ایک وہ جو مقابر کی تزئین و آرائش کے راستے جنت کے متلاشی ہیں اور
دوسرے وہ جو مدارس کی پذیرائی میں فلاح دیکھتے ہیں۔ منزل دونوں گروہوں کی
ایک راستے جدا ہیں۔ مگر ہم تو درویش لوگ ہیں سب کے سانجھے جو دے اس کا
بھلا اور جو نہ دے اس سے خدا ہی سمجھے اور ہاں کسی بھی صاحب ثروّت کے
عقیدے کی چھان پھٹک کیے بغیر چندے والی کاپی کی رونمائی نہ کرنا ،لاؤ ہاتھ
ملاؤ کیسا آئیڈیا ہے ؟ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔‘‘’’حضور بجا فرمایا آپ نے
مگر میں اس کام سے معذور ہوں۔‘‘ ارے معذوری کیسی تمہاری زبان تو ٹھیک چلتی
ہے ابھی اس صالحہ سے فَر فَر انگریزی بول رہے تھے۔ اور اس کارِ خیر کے لیے
فقط زبان ہی کافی ہوتی ہے، بشر طے کہ خلوصِ نیت سے دستِ سوال دراز
کرو۔اچھا ایسے کرو ذرا جلدی سے اپنا فون نمبر لکھ دو۔ میں ابو ظہبی کا
پانچ روزہ تبلیغی دورہ مکمل کر کے ولایت پہنچوں گا تو تم سے رابطہ کروں
گا۔‘‘ ’’مگر جناب میرا پاکستانی نمبر تو اُدھر ہی رہ گیا ہے۔‘‘ پر ابھی تم
نے بتایا تھا کہ تمہارے رشتہ دار وہاں ہوتے ہیں۔ آخر ان کے گھر کا نمبر تو
تمہیں پتا ہو گا۔ وہی نوٹ کرا دو۔ جلدی کرو جہاز اُترنے والا ہے۔‘‘جناب
معاف کیجئے میں نے کوئی ایسی بات آپ کے گوش گزار نہیں کی اور اگر بفرضِ
محال خاکم بدہن کوئی ایسی بات میرے منہ سے نکلی بھی ہے تو اس کا یہ مطلب
نہیں کہ خاکسار کو فون نمبر بھی یاد ہو گا۔‘‘ برخوردار ایک تو تم اردو بڑی
مشکل بولتے ہو خیر کوئی بات نہیں میں سمجھ گیا تم جیسے ماڈرن لوگ ثواب و
عذاب اور جنت و دوزخ کے تصوّر ہی سے یک سر ناواقف ہوتے ہیں۔ میں نے تو
تمہاری دین و دنیا سدھارنے والی بات کی تھی مگر خیر تمہارا
مقدّر۔ لکم دینکم ولی دین میرے تو کئی برخوردار ہانگ کانگ، امریکا اور
مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں اس خاکسار کا ہاتھ بٹا کر دین و دنیا کی بھلائی
سمیٹ رہے ہیں۔‘‘
جہاز ابو ظہبی لینڈ کرتا
ہے آج جب مسافر شوقِ آوارگی کے ماحصل میں حسابِ سود و زیاں کرتا ہے تو اس
مردِ درویش کی بصیرت پر رشک آتا ہے۔ آخرت کا تو پتا نہیں کم از کم دنیا
سنوارنے کا وہ سنہری موقع تھا۔ جو اپنی حماقت کی وجہ سے ضائع کر دیا۔
نپولین اپنی سوانح میں لکھتا ہے۔ ’’ہر معرکے میں ایک لمحۂ فیصل (Critical
Point)ہوتا ہے۔ میں اُسی لمحۂ فیصل کا منتظر رہتا ہوں، درست فیصلہ کرتا
ہوں اور جنگ جیت جاتا ہوں۔ دشمن وہ لمحۂ فیصل گنوا دیتا ہے اور ہار جاتا
ہے۔‘‘ مسافر نے بھی وہ لمحۂ فیصل گنوا دیا۔
٭٭٭