صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


فردوس بریں

مولانا عبدالحلیم شرر

(ناول)

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل


حسین سے کسی طرح انکار کرتے نہ بنی؛ چل کھڑا ہوا؛ اور دل میں پس و پیش کرتا ہوا زمرد کے ساتھ کوہ البرز کی تیرہ و تاریک گھاٹی میں جا گھسا۔ اب دونوں آہستہ آہستہ چلے جاتے ہیں اور اس سنسان مقام کا رعب دلوں پر اس قدر بیٹھ گیا ہے کہ بالکل خاموش ہیں۔ جوں جوں آگے بڑھتے ہیں جنگل گھنا ہوتا جاتا ہے سردی ساعت بہ ساعت بڑھ رہی ہے۔ سناٹے نے نہر بہنے کی آواز تیز کر دی ہے جس سے اس مقام کے وحشت ناک منظر میں ایک ہیبت بھی پیدا ہو گئی ہے۔ اب راستہ ایسا دشوار ہے کہ گدھوں سے اترنا پڑا۔ دونوں آگے پیچھے چلتے اپنے گدھے کے دہانے ہاتھ میں پکڑے چٹانوں سے بچتے اور جھاڑیوں میں گھستے چلے جاتے ہیں۔ آخر دیر کے سکوت کے بعد حسین نے مرعوب ہو کے کہا:“بے شک دیو و پری ایسے ہی سناٹے کے مقام میں رہتے ہیں۔ انسان کیا معنی یہاں تو جانور کا بھی پتا نہیں۔“

زمرد: ہاں! اور سنتی ہوں اس نہر میں اکثر جگہ پریاں نہاتی اور بال کھولے ہوئے آپس میں کھیلتی اور چھینٹیں اڑاتی بھی نظر آ جایا کرتی ہیں۔

حسین: (چونک کر)ایں! سنسنانے کی آواز کیسی تھی جیسے کوئی چیز سن سے کانوں کے پاس آ کر نکل گئی ؟

زمرد: یہ تو مشہور ہے پریوں کے تخت چاہے اڑتے نظر نہ آئیں مگر ان کے سن سے نکل جانے کی آواز ضرور سنائی دیتی ہے۔

حسین: یہ بھی ممکن ہے ، مگر میں سمجھتا ہوں کہ کوئی جانور تھا۔

زمرد: جانور ہوتا تو دکھائی نا دیتا!

حسین: اگرچہ ابھی آفتاب نہیں غروب ہوا، مگر یہاں تم دیکھ رہی ہو کہ شام سے بھی زیادہ اندھیرا ہے۔ ایسے دھندلکے میں بعض اوقات الو یا بڑے بڑے چمگادڑ اس طرح سناٹے کی آواز سے اڑتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔

زمرد: لیکن اصل میں یہ بھی پری زاد ہیں جو مختلف جانوروں کی صورت میں رات کو نکلتے ہیں۔

حسین: ہو گا!(انتا کہہ کر اس نے گرد کے سین کو دہشت اور بزدلی کی نگاہوں سے دیکھا اور نہایت ہی پریشانی کی آواز میں کہا) شام ہوا ہی چاہتی ہے اور تمہارے بھائی کی قبر کا کہیں پتا نہیں۔

زمرد: مگر میں تو بھائی کی قبر تک پہنچے بغیر دم نہ لوں گی۔

یہ کہتے ہی ایک نہایت ہی تاریک گھاٹی نظر آئی جس میں نہر تو گئی ہے مگر دونوں جانب ایسی چکنی اور کھڑی چٹانیں ہیں کہ انسان کا گزرنا بہت ہی دشوار ہے۔ اس گھاٹی کی صورت دیکھتے ہی زمرد ایک شوق اور بے خودی کی آواز میں چلا اٹھی: “ہاں دیکھو، یہ دوسری علامت ہے۔ اسی میں سے ہوکے راستہ گیا ہے۔“

حسین: مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ ادھر سے ہم جائیں گے کیونکر؟

زمرد: جس طرح بنے ،جاؤں گی ضرور!

حسین: اور یہ گدھے ؟

زمرد: ان کو یہیں چھوڑ دو واپس آ کے لے لینا۔

حسین سے اس مستقل مزاجی اور دھن پر زمرد کو تعجب کی نگاہ سے دیکھا، پھر گدھے درختوں سے باندھے اور دونوں چٹانوں سے چمٹتے اور ہاتھوں سے پتھروں کے سروں اور خمروں کو پکڑتے آگے روانہ ہوئے۔کوئی دو گھڑی یہ محنت کا سفر کیا ہو گا کہ گھاٹی ختم ہو گئی جس سے نکلتے ہی دونوں نے دیکھا کہ نہر ویرنجان اس گھاٹی سے گزر کے یکایک ایک نہایت ہی فرح بخش مرغ زار میں بہنے لگی ہے۔ یہ عجیب لطف کا مقام تھا۔ قدرت نے خود ہی چمن بندی کر دی تھی۔شگفتہ اور خوش رنگ پھولوں کے تختے دور دور تک پھیلتے چلے گئے تھے۔ نغمہ سنج طیور بھی یہاں کثرت سے نظر آئے جو ہر طرف شاہدان چمن کے حسن و جمال پر صدقے ہوتے پھرتے تھے۔شام ہو رہی تھی اور یہ جوش میں بھرے ہوئے عاشقانِ شاہد گل اپنے معشوقوں کو الوداع کہہ رہے تھے۔ یہ سماں دیکھتے ہی زمرد نے خوش ہو کے کہا: “اب ہم اپنی منزل مقصود کو پہنچ گئے ہیں۔ اسی وادی میں بھائی موسیٰ مارے گئے اور کہیں یہیں ان کی قبر بھی ہو گی۔“

یہ کہہ کے زمرد ایک نازک بدن اور چست چالاک ہرنی کی طرح چاروں طرف دوڑی اور ایک بڑے سے پتھر کے پاس ٹھہر کے چلائی: “آہ!یہی میرے بھائی کی قبر ہے۔“

اس آواز کے سنتے ہی حسین بھی ادھر دوڑا گیا اور دیکھا کہ ایک چٹان پر موسیٰ کا نام کھدا ہوا ہے اور اس کے قریب ہی چند پتھروں کو برابر کر کے ایک قبر کی صورت بنا دی گئی ہے۔

دونوں نے یہاں کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کی مگر زمرد کے دل پر حسرت و اندوہ کا اس قدر غلبہ ہوتا جاتا تھا کہ فاتحے کر ختم ہونے سے پہلے ہی وہ گر پڑی اور قبر سے لپٹ کر زار و قطار رونے لگی۔ حسین نے بہت کچھ تسلی دی، نہر سے پانی لا کے منہ دھلایا اور رات کے اندھیرے میں اپنی حور وش محبوبہ کو گود میں لے کے بیٹھا اور سمجھانے لگا۔

زمرد: (ہچکیاں لے لے کے ) حسین مجھے اپنی زندگی کی امید نہیں؛ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہںب مروں گی۔ ہاتھ پاؤں سنسنا رہے ہیں، کلیجے میں میٹھا میٹھا سا درد ہے اور دل بیٹھا جا رہا ہے۔ مگر مرنے سے پہلے تم سے ایک وصیت ہے۔ مر جاؤں تو میری لاش کو بھی انھیں پتھروں کے نیےی دبا دینا جن کے نیچے بھائی موسیٰ کی ہڈیاں ہیں۔

حسین: (نہایت مستقل مزاجی سے آنکھوں ہی آنکھوں میں آنسو پی کر) یہ وصیت اگر پوری ہونے والی ہو گی تو کسی اور کے ہاتھوں سے پوری ہو گی۔ میں تماےرے بعد زندہ نہیں رہ سکتا۔ اور جس کسی کے ہاتھ سے یہ وصیت پوری ہو گی وہ تمہارے ساتھ میری ہڈیوں کو بھی ان ہی پتھروں کے نیچے دبائے گا۔

زمرد: (خوشامد کے لہجے میں) نہیں حسین ایسا نہ کرنا۔ تم کو ابھی نہیں معلوم کہ مجھے کیا چیز یہاں کھینچ لائی ہے۔ نہ یہ کہہ سکتی ہوں کہ بھائی کی محبت ہے نہ یہ کہہ سکتی ہوں کے یعقوب کے بیان میں کوئی جادو تھا، مگر جس روز اس نے بھائی موسیٰ کی حسرت نصیب داستان سنائی اس کے دوسرے ہی دن میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے بھائی اس وادی میں کھڑے ہیں۔ خواب ہی میں انھوں نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا اور تاکید کر کے کہا کہ میرے قبر پر آ کے فاتحہ پڑھ۔مرحوم بھائی نے کچھ ایسی مؤثر وضع سے بلایا تھا کہ ان کی اُس وقت کی صورت اِس وقت تک میری آنکھوں کے سامنے پھر رہی ہے۔ اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ میں یہاں بھائی کی بلائی ہوئی آئی ہوں۔

حسین: (وفورِ گریا سے بے اختیار ہو کر اور ایک بے انتہا جوش کے ساتھ)خیر تمھیں تو انھوں نے خواب میں فقط بلایا تھا اور مجھے تم خود ساتھ لائی ہو۔

زمرد:ہاں میں تم کو ساتھ لائی اور اسی سبب سے کہ اس دنیا میں مجھے تم سے زیادہ کوئی عزیز نہیں۔ میری تمنا تھی اور ہے کہ تمہارے پہلو میں اور تمہاری آنکھوں کے سامنے جان دوں؛ اور اس کے بعد تم گھر جاؤ اور وہاں عزیزوں اور شہر کے دیگر شرفاء کی نظر میں جو کچھ بے عزتی ہوئی ہے اس کو دور کرو اور میری خبر مرگ کے ساتھ سب کو جا کے بتا دو کہ میں نے کیوں اور کہاں جان دی۔ اور مرتے وقت تک کیسی پاک دامن تھی۔ (گلے میں بانہیں ڈال کے ) حسین! میری آرزو ہے کہ تم زندہ رہو اور میرے دامن سے بدنامی کا داغ دھوؤ۔

حسین: (ایک نالہ جانکاہ کے ساتھ) خدا نہ کرے کہ میں تمہاری خبر مرگ لے جاؤں!

زا کہاں ایک پہاڑی کی ڈھالو سطح پر کچھ روشنی نظر آئی، جس پر پہلے زمرد کی نظر پڑی اور اس نے چونک کے کہا:“یہ روشنی کیسی؟“ حسین نے بھی اس روشنی کو حیرت سے دیکھا ور کہا:“خدا جانے کیا بات ہے ، اور دیکھو ادھر ہی بڑھتی چلی آتی ہے۔ اس رات کی تاریکی میں یہاں آنے والے کون لوگ ہو سکتے ہیں؟“

دونوں عاشق و معشوق روشنی کو گھبرا کے اور ساعت بہ ساعت زیادہ متحیزہو کے دیکھ رہے تھے کہ وہ بالکل قریب آ گئی۔ بڑی بڑی پندرہ بیس مشعلیں تھیں اور ان کے نیچے حسین و پری جمال عورتوں کا ایک بڑا غول، جن کی صورت دیکھتے ہی زمرد اور حسین دونوں نے ایک چیخ ماری؛ دہشت زدگی کی آواز میں دونوں کی زبان سے نکلا “پریاں“ اور دونوں غش کھا کے بے ہوش ہو گےی۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول