صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


فراقؔ کی جمالیات

شکیل الرّحمٰن

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

اقتباس

    ’ردِم‘ (Rhythm) کا تعلق یونانی لفظ rhythmos سے  ہے  جس کا مفہوم ’رفتار‘ (tempo) سے  قریب تر ہے۔ پوری کائنات میں  آہنگ کا قانون موجود ہے، اس کے  عمل کو خوب محسوس کر سکتے  ہیں۔ تمام فطری عوامل کے  باطن میں  آہنگ موجود ہے، محسوس ہوتا ہے  جیسے  ہر صورت کے  اندر آہنگ کا زیر و بم ہے، تخلیق جو ارتعاشات (vibrations) کا فینومینن ہے  آہنگ ہی کا خوبصورت کرشمہ ہے، آہنگ کے  بغیر کسی صورت کا تصوّر ہی پیدا نہیں  ہو سکتا، کوئی ایسی حرکت نہیں  جس میں  آواز نہ ہو اور کوئی ایسی آواز نہیں  کہ جس میں  آہنگ نہ ہو۔ وقت کی رفتار اور لمحوں  میں  آہنگ موجود ہے۔ آہنگ کی بہترین صورت موسیقی میں  دیکھی جا سکتی ہے۔ آہنگ ہی موسیقی کی رُوح ہے، موسیقی کے  مختلف حصّے  ایک دوسرے  سے  جذب ہو کر کوئی صورت اختیار کر لیتے  ہیں  تو مفہوم پیدا ہوتا ہے، بہاؤ میں  مفہوم اُبھر آتا ہے۔ شاعری میں  اکثر دو مصرعے  جب ایک دوسرے  میں  جذب ہو جاتے  ہیں  تو بہاؤ کے  ساتھ ایک جذبہ خلق ہو جاتا ہے، آہنگ کی ایک جمالیاتی تصویر اُبھر آتی ہے۔ آہنگ کا تعلق کمپوزیشن (composition) یا ترتیب سے  ہے، کمپوزیشن جتنا عمدہ ہو گا آہنگ بھی اُتنا ہی متاثر کن ہو گا۔ کسی اچھی تصویر میں  چند لکیروں، چند رنگوں  کی آمیزش کی تکرار سے  جو آہنگ پیدا ہوتا ہے  وہ غور طلب ہے۔ تکرار یا Repetition کی بڑی اہمیت ہے، اس سے  آہنگ جنم لیتا ہے۔ یہی آہنگ دیکھنے  والے  کی نظر کو پوری تصویر میں  گھومنے  پر مجبور کرتا ہے۔

    آہنگ (rhythm) فطرت کا پوشیدہ قانون ہے۔ دل کی دھڑکن، نبض کی حرکت، جسم میں  خون کی گردش اور طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب، سمندر کی لہروں  کی مسلسل تبدیلیاں، موسموں  کی تبدیلی، سب آہنگ کی تبدیلی کا احساس دیتے  ہیں۔ پرندوں  کی پرواز اور زمین پر چلتے  ہوئے  ہر ذی رُوح میں  آہنگ موجود ہے۔ رنگوں  کی آمیزش کی متوازن صورت سے  دلکش آہنگ کی پہچان ہو جاتی ہے، رنگوں  میں  توازن نہ ہو تو اچھا آہنگ پیدا ہی نہیں  ہو گا۔ اچھی موسیقی کا آہنگ ہی رقص کرنے  پر اُکساتا ہے۔

    آہنگ ایک اسرار ہے  جو وقت کے  تسلسل اور لمحوں  کی خاموش تبدیلیوں  میں  موجود رہتا ہے۔

    اس عہد میں  فراقؔ ادبی روایات کے  جلال و جمال کے  آہنگ کی مکمل طور پر نمائندگی کرتے  ہیں، کلاسیکی روایات کے  حسن و جمال کو خوب جانتے  پہچانتے  ہیں۔ ان کی شاعری میں  آہنگِ جلال و جمال کا جو منفرد احساس ملتا ہے  وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بلاشبہ وہ آہنگِ جلال و جمال کے  بڑے  شاعر ہیں۔ کلام کا آہنگ عمدہ جذبوں  کے  رسوں  کی دین ہے۔    ّحسیات و لمسیات کی اس شاعری کا آہنگ ہی مختلف اور منفرد ہے :


سمٹ سمٹ سی گئی ہے  فضائے  بے  پایاں

بدن  چرائے  وہ جس دم اِدھر سے  گزرے  ہیں


شام بھی تھی دھواں  دھواں  حسن بھی تھا اُداس اُداس

دِل کو کئی کہانیاں  یاد سی آ کے  رہ گئیں


تمام خستگی و ماندگی ہے  عالمِ ہجر

تھکے  تھکے  سے  یہ تارے  تھکی تھکی سی یہ رات


    لفظوں  کی تکرار (سمٹ سمٹ، دھواں  دھواں، تھکے  تھکے، تھکی تھکی، اُداس اُداس) نے  شاعر کی حسّی اور لمسی کیفیتوں  کو تخلیقی سطح پر حد درجہ محسوس بنا دیا ہے، ایسے  اشعار میں  کبھی محبوب کے  جمال کا آہنگ مختلف متحرک نقش مختلف پرچھائیوں  کی صورتیں  اُبھارتا ہے او ر کبھی ماضی کے  درد کے  تجربوں  کی المناکی کو احساس اور جذبے  سے  قریب کر دیتا ہے۔ آہنگ کبھی سرگوشی کے  اسرار تک اس طرح لے  جاتا ہے  کہ اسرار کی لطافت ہی سے  جمالیاتی انبساط حاصل ہونے  لگتا ہے، یادوں  کی لطیف  پراسرار دھُند میں  ذہن اُترنے  لگتا ہے۔ اسی کو مسعود آہنگ (Rhythm of Bliss) اور مکمل جمالیاتی آسودگی اور انبساط سے  تعبیر کیا گیا ہے۔

    ہندوستانی جمالیات کا بغور مطالعہ کیا جائے  تو یہ  ّسچائی بھی سامنے  آئے  گی کہ دُنیا کو آواز، آہنگ اور روشنی کا اظہار یا ظہور manifestation سمجھا گیا ہے۔ یہ جمالیاتی فکر و نظر کی بنیادی    ّسچائی ہے، سورج اس فکرو نظر کی بنیادی مرکزی علامت ہے۔ ’سوریہ‘ کے  لفظ کا تعلق ’سور‘ (   سر) (svar) سے  ہے  کہ جس کے  دو معنی ہیں  ’چمک‘، ’روشنی‘ روشن کرنا وغیرہ۔ اور۔۔۔ آواز آہنگ!سات بنیادی رنگ موسیقی میں  سات ’سوروں ‘ یا ’   سروں ‘ سے  قریب ہیں۔ ’سوریہ‘ روشنی اور آواز دونوں  کی علامت ہے۔ روشنی اور آواز کی ہم آہنگی ’سوریہ‘ ہے۔ ہندوستانی جمالیات میں  ہر فن میں  ’بیانیہ‘ یا narrative کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، ’بیانیہ‘ فن کی رُوح ہے، وہ موسیقی ہو یا رقص یا ڈراما،    ّمجسمہ سازی ہو یا فنِ تعمیر۔ تمام فنون درخت کی مانند اپنی مضبوط جڑوں  کی بنیاد پر اُوپر اُٹھتے، بڑھتے  نظر آتے  ہیں۔ سب رُوحانی تجربہ لگتے  ہیں، لاشعور میں  غالباً یہ عقیدہ پوشیدہ ہے  کہ زندگی کا تسلسل قائم ہے، ساتھ ہی زندگی کی وحدت بھی موجود ہے۔ ہندوستانی جمالیات نے  اس بات پر اصرار کیا ہے  کہ انسان اور نیچر کا رشتہ اٹوٹ ہے، ٹوٹنے  والا نہیں  ہے، انسان اور فطرت، انسان اور وقت اور فضا، انسان اور دیوتا، انسان اور کائنات اور انسان اور انسان۔۔۔ ان کی وحدت موجود ہے۔

    جن حضرات نے  راجپوت مصوّری کے  نمونے  دیکھے  ہوں  گے  انھیں  آہنگ اور آہنگ کی وحدت اور جمالِ وحدت کا نقش ضرور ملا ہو گا۔ مثلاً ایک خوبصورت سوگوار عورت کی تصویر سامنے  آتی ہے، بادل چھائے  ہوئے  ہیں، یہ بادل اس عورت کے  بہت پاس ہیں، یہ بھی اُداس اور سوگوار ہیں، چاند ہے  تو وہ بھی اُداس اُداس، عورت کی سائیکی کی علامت اُداسی کا استعارہ، بادلوں او ر چاند کو عورت کے  وجود اور اس کی ظاہری اور باطنی کیفیتوں  سے علیٰحدہ نہیں  کر سکتے۔ عورت اور بادل اور چاند کی وحدت واضح طور پر نظر آتی ہے او ر جمالِ وحدت کا گہرا تاثر ملتا ہے۔ اسی طرح شاعری میں  تجربے او ر ماحول اور فضا کے  آہنگ کی وحدت سے  جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا رہتا ہے۔ اکثر ماضی اور یادوں  کے  آہنگ سے  رشتہ قائم ہو جاتا ہے او ر آہنگ اور آہنگ کی وحدت قاری کو ایک پراسرار لذّت آمیز کیفیت عطا کر دیتی ہے۔


    غزل کا کینوس چھوٹا تو ہے  لیکن گہرا بھی کم نہیں  ہے۔ غزل کے  کئی تخلیقی فنکاروں  نے  اس آرٹ میں  بڑی گہرائی پیدا کی ہے۔ ’بیانیہ‘ اس کی بھی ایک بنیادی خصوصیت ہے  لیکن اس آرٹ کے  کینوس کا تقاضہ یہ ہے  کہ واقعہ استعاروں او ر اشاروں  میں  بیان ہو یا استعارے  اشارے  لیے  ہوں  کہ ذہن واقعے  کے   پراسرار دھُندلکوں  تک ہی پہنچ کر جمالیاتی انبساط حاصل کر لے، اَن کہی کہانی میں  حسّیاتی سطح پر کوئی ’رَس‘ (Rasa) پالے، کچھ چکھ لے او ر لذّت پالے، فراقؔ جب یہ کہتے  ہیں :


دیکھ آئے  آج یادوں  کا نگر

ہر طرف پرچھائیاں  پرچھائیاں

    یا:

حسن بھی تھا اُداس اُداس شام بھی تھی دھُواں  دھُواں

یاد سی آ کے  رہ گئیں  دل کو کئی کہانیاں

    یا:

اُف یہ فضا اُداس اُداس، آہ یہ موج دودِ شام

یاد سی آ کے  رہ گئیں، دل کو کئی کہانیاں


تو غزل کے  چھوٹے  کینوس کی گہرائیوں  کا کچھ کچھ اندازہ تو ہوتا ہی ہے  بیانیہ کی پُر اسراریت کی سرگوشیوں  کا احساس بھی ملتا ہے۔


    آہنگ اور آہنگ کی جمالیاتی وحدت سے  جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا رہتا ہے۔ یادوں  کے  نگر میں  ہر جانب صرف پرچھائیاں  ہی پرچھائیاں  ہیں۔ پرچھائیوں  کے  پیچھے  واقعات و واردات کی کہانیاں  چھپی ہوئی ہیں۔ پرچھائیاں  یادیں، حادثات و واقعات چھپائے  بیٹھی ہیں۔ یادوں  کے  نگر کی پرچھائیاں، دھواں  دھواں  شام، اُداس اُداس فضا، یہ سب عاشق کے  وجود سے  قریب تر ہیں۔ عاشق کی سائیکی سے  ان کا گہرا رشتہ قائم ہے او ر اسی طرح ذات اور فضاؤں  کی ایک جمالیاتی وحدت قائم ہو گئی ہے۔ مصوّر اس جمالیاتی وحدت کی خوبصورت تصویر بنا سکتا ہے۔ فراقؔ کی جمالیات میں  ایک جانب عاشق اور اس کے  ماضی کے  لمسی اور جذباتی تجربوں  کی جمالیاتی ہم آہنگی کی  پراسرار کیفیتیں  متاثر کرتی ہیں  تو دوسری جانب محبوب اور وقت اور جلال و جمال کی ہم آہنگی بھی اثرانداز ہوتی ہے۔


    ہندوستانی جمالیات میں  آرٹ زندگی کی نمائندگی نہیں  کرتا، یہ زندگی کی سجاوٹ اور آرائش و زیبائش کا نقش بھی نہیں  ہے، یہ وجود کا ایک     ّحصہ ہے۔ یہ زندگی کی رُوح ہے، زندگی کا جوہر ہے  اس کا نقطۂ عروج (culmination) ہے۔ کالیداس کے  کلام میں  ایک مقام پر سیتا زارزار روتی دِکھائی دیتی ہیں، لکچھمن انھیں  والمیکی کی   کٹیا میں  چھوڑ کر چلے  گئے  ہیں، وہ تنہا ہیں او ر روتی جا رہی ہیں، ان لمحوں  کو کالیداس نے  کائناتی دُکھ (cosmic sorrow) میں  تبدیل کر دیا ہے۔ سارا جنگل رو رہا ہے، یہ غم پورے  وجود کا ایک     ّحصہ بن گیا ہے۔ درختوں  سے  پھول آنسوؤں  کی طرح ٹپک رہے  ہیں، اس غم میں  جیسے  ساری کائنات سما گئی ہو۔ ایک عجیب و غریب منظر ہے، ایک عجیب و غریب تجربہ ہے۔ فطرت اور انسان کا   پراسرار بامعنی رشتہ زندگی کا تجربہ بن جاتا ہے۔ بیانیہ کی کیفیت ایسی ہے  کہ لگتا ہے  زماں  و مکاں  سے  آگے  نکلتے  جا رہے  ہیں، انسان اور فطرت یا نیچر کے  اس   پراسرار رشتے  سے  جو ’رس‘ (Rasa) پیدا ہوتا ہے  یا ٹپکتا ہے  وہی آرٹ کا بنیادی جوہر ہے۔ جس طرح راجپوت مصوّری کی دوشیزہ اور بادلوں  کی جمالیاتی وحدت متاثر کرتی ہے  اسی طرح یہاں  مرکزی کردار اور وقت کی جمالیاتی وحدت اثرانداز ہوتی ہے، بہت اچھی شاعری اپنے  ’رسوں ‘ سے  متاثر کرتی ہے۔


    فراقؔ کی جمالیات میں  ’وقت‘ عاشق کے  تجربوں  میں  جذب ہے۔ ’شب‘ یا ’رات‘ وقت کا سب سے  اہم معنی خیز استعارہ ہے  جو عموماً وقت کے  المیہ کو احساس اور جذبے  سے  قریب تر کر دیتا ہے۔ حسّی کیفیتوں او ر ’شب‘ کی ہم آہنگی سے  جو جمالیاتی وحدت پیدا ہوتی ہے  وہ جمالیاتِ فراقؔ کا جوہر ہے۔ فراقؔ اس بات کو خوب جانتے  ہیں، کہتے  ہیں :


’’رات کی کیفیتیں او ر رات کی رمزیت جس طرح میرے  اشعار میں  فضا باندھتی ہے  وہ کہیں او ر نہیں  ملے  گی۔ ‘‘

٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول