صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


اصولِ فقہ

محمد علی

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

حاکم

    اسلام میں حکم دینے  یعنی تشریع کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔  اس لیے  وہی شارع ہے  اور اسی سے  حکم اختراع  (originate) ہوتا ہے۔  چنانچہ الحاکم ہونا اللہ تعالیٰ کی صفات میں  سے  ہے  جس میں  کوئی اور شریک نہیں  ہو سکتا۔  اس کی حاکمیت میں  شریک ہونے  کا دعویٰ، اس کی ربوبیت میں  شراکت کے  دعوے ٰ کے  مترادف ہے۔  اللہ تعالیٰ کے  فرمان ہیں : 

﴿ إن الحکم إلا للّٰہ ﴾ 6:57

(حکم تو صرف اللہ ہی کے  لیے  ہے)


﴿ ألا لہ الخلق والأمر ﴾7:54

(یاد رکھو !  اسی)اللہ) کے  لیے  ہے  خاص خالق ہونا اور حاکم ہونا)


مغربی قانونی فلسفہ، جو عقل کو قانون سازی کا منبع گردانتا ہے، اسلام کے  مذکورہ اصول کے  متضاد ہے۔  مغربی فلسفے  میں  عقل کو ہی یہ اختیار حاصل ہے  کہ وہ اچھے  اور برے  کا فیصلہ کرے  اور اس امر میں  کسی خارجی عنصر کی مداخلت، مثلاً وحی، ناقابلِ برداشت ہے۔  دوسرے  لفظوں  میں  عقل ہی حاکم ہے  اور یہی واقعات پر اپنا اٹل فیصلہ سناتی ہے۔  جبکہ اسلام میں  عقل کا کردار شرعی نصوص سے، بندے  کے  افعال سے  متعلق شارع کے  خطاب کو، سمجھنے  تک محدود ہے۔  عقل اس سمجھنے  کے  سلسلے  میں  اپنا کوئی خود مختار فیصلہ نہیں  دے  سکتی بلکہ یہ صرف نصوص میں  مقید ہے۔  پس جس  بات پر یہ دلالت کریں  یا جس طرف اشارہ، عقل اسی حد تک جائے گی اور اس سے  تجاوز نہیں  کر سکتی، یعنی یہ نصوص کی عقلی تاویل سے  باز رہے  گی! 


    انسان کے  افعال پر گہری نظر ڈالنے  سے  یہ ثابت ہوتا ہے  کہ عقل ان پر اٹل فیصلہ نہیں  دے  سکتی۔  اس کی پہلی وجہ یہ کہ عقل محدود ہے  کیونکہ ہر روز اس کی معلومات میں  اضافہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے  یہ نئے  نئے  انکشاف کرتی ہے۔  پھر جب کوئی حل دیتی ہے، تو وہ انہی معلومات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔  پس جب اس کی فکری افق مزید وسیع ہوتی ہے، تو یہ اپنا فیصلہ بدل کر کوئی نیا فیصلہ سنا تی ہے  اور اس وقت پرانا حل غلط نظر آتا ہے۔  دوسرے  لفظوں  میں  انسان جب اپنی عقل سے  افعال پر فیصلہ صادر کرنے  کی کوشش کرتا ہے، تو وہ ہمیشہ عارضی ہوتا ہے  اور حالات بدلنے  سے  اس کا فیصلہ بھی بدل جاتا ہے۔  مغرب میں  قانون سازی پر ایک نظر ڈالنے  سے  اس امر کی تصدیق ہوتی ہے۔  وہاں  آئے  دن قوانین بدلتے  ہیں  جبکہ سابقہ حل غلط اور فضول نظر آتے  ہیں۔  یعنی انسان افعال پر یہ اٹل فیصلہ سنانے  سے  قاصر ہے  کہ کونسا فعل صحیح و اچھا ہے  اور کونسا فعل غلط اور برا۔  اسی سے  عقل کی قانون سازی میں  لا اہلیت واضح ہو جاتی ہے۔


    علاوہ ازیں  جب انسان کی عقل کسی فعل کو اچھے  یا برے  ہونے  سے  تعبیر کرتی ہے، تو صورتِ حالات اس کی شرح پر اثر انداز ہوتے  ہیں۔  مثلاً جنگ کی حالت میں  یا کسی شخص سے  انتقام لینے  کی صورت میں، عقل قتل کو اچھا سمجھ سکتی ہے، جبکہ کئی دوسرے  مواقع پر یہ قتل کو برا سمجھتی ہے۔  چنانچہ کسی فعل سے، ذاتی طور پر، اس کی اچھائی یا برائی نہیں  سمجھی جا سکتی، بلکہ اس پر ہمیشہ خارجی عناصر اثر انداز ہوں گے۔  یہیں  سے  ثابت ہوا کہ عقلِ انسانی قانون سازی کے  لیے  عاجز ہے  اور ایک ایسی ہستی اس کام کے  لیے  درکار ہے، جو تمام موجودات کا احاطہ کرے  اور اپنی معلومات میں  کامل ہو !  ظاہر ہے  کہ صرف تمام جہانوں  کا رب، اللہ ہی اس کی قابلیت رکھتا ہے، کیونکہ اسی نے  انسان کی تخلیق کی اور صرف یہ ہی بتا سکتا ہے  کہ اس کے  لیے  کیا اچھا اور کیا برا ہے۔  چنانچہ فقط وہی افعال پر اٹل فیصلہ سنا سکتا ہے  اور اسی لئے  وہی شارع ہے۔  پس جسے  شارع نے  اچھا قرار دیا ہے، وہ فعل انسان کے  لئے  اچھا ہے  اور

 جسے  شارع نے  برا قرار دیا ہے، وہ فعل انسان کے  لئے  برا ! 

 

محکوم فیہ


     بندے  کے  اس فعل پر،  جس سے  شارع کا خطاب متعلق ہے، ’’محکوم فیہ‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔  شرعی دلائل کے  استقراء سے  فعل کی تکلیفlegal responsibility of the act) )صحیح ہونے  کی مندرجہ ذیل شرائط منظرِ عام پر آتی ہیں :

1) شارع نے  فعل کو بیان کیا ہو، ورنہ اس کا حساب نہیں  ہو گا۔    

﴿و ما کنا معذبین حتی نبعث رسولا﴾17:15

(اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے  سے  پہلے  ہی عذاب کرنے  لگیں)

 

یہیں  سے  یہ قاعدہ اخذ کیا گیا ہے :  لا حکم قبل ورود الشرع) شرع کے  وارد ہونے  سے  پہلے  کوئی حکم نہیں)


2) بندہ اس فعل کو سرانجام دینے  پر قادر ہو۔

﴿ لا یکلف اللّٰہ نفسا إلا وسعھا﴾2:286 

(اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے  زیادہ تکلیف نہیں  دیتا)


یہ فعل اللہ اور اس کے  رسول ﷺ کی تعمیل میں  کیا گیا ہو، ورنہ یہ قبول نہیں  کیا جائے گا۔

﴿ فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ﴾4:65

(قسم ہے  تیرے  پروردگار کی!یہ مومن نہیں  ہو سکتے  جب تک کہ تمام آپس کے  اختلاف میں  آپ کو فیصلہ کرنے  والا نہ مان لیں)


4 ) وہ افعال جو حقوق اللہ کی ضمن میں  آتے  ہیں  اور ان پر سزائیں  مرتب ہوتی ہیں  جیسے  حدود، تو ان حقوق کو، بندے  کی معافی سے، ساقط نہیں  کیا جا سکتا۔

’’ أتشفع فی حد من حدود اللّٰہ ؟.....و ایم اللّٰہ لو أن

                         فاطمۃ بنت محمد سرقت لقطعت یدہا‘‘ )متفق علیہ)          

(کیا تم اللہ کی مقرر کردہ سزاؤں  کے  معاملے  میں  میرے  سامنے  سفارش لے  کر آئے  ہو؟....

پھر آپؐ نے  اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے  تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے  گا)


٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول