صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
فکر و خیال
پروفیسر غلام شبیر راناؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
سعود عثمانی :ایک منفرد اسلوب کا حامل شاعر۔ اقتباس
لاہور میں مقیم پاکستان کے ممتا ز شاعر سعود عثمانی گزشتہ تین عشروں سے پرورش لوح و قلم میں مصروف ہیں۔ کتابیں ہی ان کا چمن ہیں اور ان کی اشاعت سے ان کا روزگار وابستہ ہے۔ اس با ہمت تخلیق کار نے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے وہ تما کچھ صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے جو اسے اہل دنیا نے تجربات، مشاہدات، حادثات اور سانحات کی صورت میں دیا۔ سعود عثمانی کے دو شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ انھیں ادبی حلقوں میں زبردست پذیرائی ملی۔ پہلا شعری مجموعہ ـ’’قوس‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور دوسرے شعری مجموعے کا نما ’’بارش‘‘ ہے۔ ان دونوں شعری مجموعوں پر ادبی ایوارڈ ملے آج کا دور قحط الرجال کا دور کہلاتا ہے۔ زندگی کی اقدار عالیہ اور روایات کی زبوں حالی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سیل زماں کے مہیب تھپیڑوں میں ماضی کا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ بہہ گیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی زندگی کی اجتماعی اقدار رو بہ زوال ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس دنیا میں سکوں محال ہے اور جہاں تک ثبات کا تعلق ہے یہ تو محض تغیر کو حاصل ہے۔ اقدار و روایات میں رو نما ہونے والے پیہم تغیر و تبدل نے تخلیقی عمل کو بھی متاثر کیا ہے۔ اسلوب بیان بھی اس سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ یہ تغیر ایک فطری اور قابل فہم صورت میں سامنے آتا ہے۔ سعود عثمانی کی شاعری میں عصری آگہی کا عنصر نمایاں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی کے اعجاز سے یہ شاعری اذہان کی تطہیر و تنویر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اردو شاعری کو نیا آہنگ، تخلیقی تنوع، منفرد اسلوب، دلکش ڈسکورس، ہمہ گیر مشاہدہ، آفاقی تجربات اور حریت فکر سے متمتع کر کے سعود عثمانی نے جو اہم خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کر کے اس جری تخلیق کار نے جمود کا خاتمہ کرنے کی سعی کی ہے۔ اس کی تکلیقی فعالیت کے سوتے انسانی ہمدردی کے جذبات سے پھوٹتے ہیں۔
سعود عثمانی تقلید کی روش سے دامن بچاتا ہوا اپنے لیے ایک جداگانہ اور منفرد لائحہ عمل تلاش کرتا ہے۔ ادبی روایت کو وہ ایک ایسے عمل سے تعبیر کرتا ہے جو زندگی کی تمام حرکت و حرارت کا نقیب ہے۔ یہ کائنات بادی النظر میں ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔ اس عالم آب و گل کے جملہ مظاہر سین یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ جو دما دم صدائے کن فیکون سنائی دے رہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خوب سے خوب تر کی جستجو کا جو سلسلہ ازل سے جاری ہے وہ ابد تک جاری رہے گا۔ ادبی روایات بھی زندگی کی تاب و تواں کی امین ہوتی ہیں۔ سعود عثمانی کی شاعری میں زندگی کی اقدار عالیہ پوری قوت، صداقت اور شدت کے ساتھ الفاظ کے قالب میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں۔ سعود عثمانی ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ زمانے میں محبت کے سوا اور بے شمار مسائل ہیں۔ اس کی شاعری میں مارکس اور اینگلز کے تصورات کا پرتو بھی ملتا ہے۔ یہ ایک تلخ اور تند حقیقت ہے نکہ معاشرتی زندگی میں معیشت اور اقتصادی مسائل نے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی ہے۔ آج کا انسان حسیاناؤں کی زلف گرہ گیر، عشوے اور غمزے، لب لعلیں ، سیاہ چشمگی، چاہ زنخداں یا کمر سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس کے شعور اور لا شعور کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اسے سر چھپانے کو جھونپڑا اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے نان جویں درکار ہے۔ معیشت اور اقتصادیات کے تفکرات نے اسے نڈھال کر دیا ہے۔ سعود عثمانی نے اپنی شاعری میں ادب، کلچر اور اسے متعلق مسائل مکا احوال نہایت حقیقت پسندانہ انداز میں کیا ہے۔ اس نے پاکستانی ادب اور کلچر کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی سعی کی ہے۔ وہ اس بات سے بہ خوبی آگاہ ہے کہ 1857کے سانحہ کے بعد یہاں کے عوام جن لرزہ خیز اعصاب شکن حالات اور قلزم خوں سے گزرے ان کے باعث یہاں تہذیبی انحطاط کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مشرقی تہذیب کی باز یافت پر توجہ دی جائے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مو ہنجو دڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا اور ماتلی کے آثار قدیمہ اس خطے کے قدیم اور عظیم کلچر کے غماز ہیں۔ سعود عثمانی اپنی مٹی پر چلنے کا قرینہ خوب جانتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ مغرب کی بھونڈی نقالی کی روش مہلک ہے اور اس سے تہذیبی اور ثقافتی سظح پر محرومی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
تخلیقی فعالیت سعود عثمانی کے ریشے ریشے میں سما گئی ہے۔ بچپن میں اسے گھر میں جو علمی وا ادبی ماحول میسر آیا اس نے اس زیرک تخلیق کار کی خداداد صلاحیتوں کو صیقل کیا۔ ایک مستعد، فعال اور صاحب بصیرت تخلیق کار کی حیثیت سے سعود عثمانی نے اپنے لیے جو طرز فغاں اختراع کی وہی آ خر کار اس کی پہچان بن گئی۔ اس کا یہ اسلوب جو شرع میں تزکیہ نفس کا ایک وسیلہ تھا بعد میں اس کی عملی زندگی کا اہم ترین حصہ بن گیا۔ اس کی تحلیل نفسی کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق ادب کے بغیر وہ سانس بھی نہیں لے سکتا۔ وہ سچ کا پرستار ہے اور سچ لکھنے کے لیے اسے جو بھی ہرجانہ دینا پڑے اس کے لیے وہ ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا اس کا شیوہ ہے۔ اس کی چاہتیں اور محبتیں انسانیت کے مدار میں سرگرم سفر رہتی ہیں۔ مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مذمت میں وہ کبھی تامل نہیں کرتا۔ وہ ٹھنڈے دل سے حالات کا تجزیہ کرتا ہے اور جب وہ کسی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے تو تیشہ حرف سے فصیل جبر منہدم کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اگر حلقہ احباب ہو تو اس کی نرم دلی قابل دید ہوتی ہے مگر جب استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں کی بات ہو تو وہ شعلہ جوالا بن جاتا ہے۔
٭٭٭