صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


فکری ملکیت اور صنعتِ ایجاد 

نا معلوم

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

فکری ملکیت اور صنعتِ ایجاد

اوپن سورس کے سورج کے طلوع نے گویا ترقی یافتہ ٹیکنالوجی اور دستیاب ٹیکنالوجی کے درمیان حائل دیوار کو گرا دیا، 1970 اور اس سے پہلے بھی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی اور اس سے متعلق لوازمات موجود تھے مگر یہ صرف چند ملکوں تک ہی محدود تھے (اب بھی ہے) کیونکہ ان ملکوں نے ایسی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کو کسی دوسرے ملک کو فروخت کرنے پر پابندیاں لگا رکھی تھیں کیونکہ یہ ملک سمجھتے تھے کہ ایسی مشینری اور پروگرام جو ان کے حساس اداروں میں مستعمل ہیں کو فروخت کرنے سے ان کی کمزوریاں ظاہر ہو جائیں گی اور یہ بہت ممکن ہے کہ یہ دشمن ہاتھوں میں پہنچ جائیں، چنانچہ ہم تک جو بھی پہنچتا تھا وہ صرف عام اور بے ضرر قسم کی تجارتی ٹیکنالوجی ہوتی تھی۔
جب اوپن سورس کی تحریک شروع ہوئی تو عام طور پر یہ سمجھا جانے لگا کہ اس میں کام کرنے والے ملازمت کی تلاش میں ہلکان لوگ ہیں جو ایسا اس لئے کر رہے ہیں تاکہ ‘کلوزڈ سورس’ میں ملازمتیں حاصل کر سکیں، یا پھر شوقیہ لوگ ہیں، مگر حیرت انگیز طور پر یہ ایک ‘بھاری’ قسم کی ٹیکنالوجی ثابت ہوئی، کیونکہ اس میں کام کرنے والے ویسے لوگ نہیں تھے جیسا کہ سمجھا جانے لگا، بلکہ سائنسی تحقیق کے ادارے، یونیورسٹیاں، اور بڑی بڑی کمپنیاں تھیں، مثلاً معلومات کی ترمیز (انکرپشن) کا طریقہ کار جسے امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹینڈرڈز اینڈ ٹیکنالوجی NIST نے وضع کیا تھا اور جو DES کہلاتا ہے اس سے کہیں کمزور ہے جسے اوپن سورس آرگنائزیشن گنو www۔gnu۔org نے وضع کیا تھا چنانچہ NIST نے ابھی تک امریکی حکومت کے کمپیوٹروں میں DES کے استعمال کی اجازت نہیں دی۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ امریکہ کے قومی سلامتی کے ادارے نیشنل سیکورٹی ایجنسی NSA نے بھی اپنی ایک خاص لینکس ڈسٹرو بنا رکھی ہے جو SELinux کہلاتی ہے اور جسے انہوں نے اپنی امنی ضروریات کے مطابق ڈھالا اور بنایا ہے مگر چونکہ لینکس ایک آزاد مصدر نظام ہے اس لئے NSA اسے GPL لائسنس کے تحت ‘سیکرٹ’ نہیں رکھ سکتی اور اسے خاص و زد عام کرنے پر مجبور ہے چنانچہ آپ SELinux اور اس کا مصدر بڑے آرام سے NSA کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔
فی الوقت دنیا کا سب سے بڑا سپر کمپیوٹر (اور دوسرا بھی) لینکس پر چل رہے ہیں، اس اعتماد کی وجہ وہ فلسفہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ اوپن سورس سوفٹ ویر کا کوڈ چونکہ ہر کوئی دیکھ سکتا ہے چنانچہ یہ امکان قطعی ختم ہو جاتا ہے کہ اس میں ‘جان بوجھ’ کر چھوڑا گیا کوئی ‘سیکورٹی ہول’ ہو گا جو بعد میں کسی خطرناک صورتحال پر منتج ہوسکے۔ بہر صورت ہر کسی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی غلطی کی دریافت پر اسے خود ہی درست کر دے اور اوپن سورس کے قانون کے تحت اسے دنیا کے لئے نشر کر دے۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ امریکی حکومت معلومات کی ترمیز (ڈیٹا انکرپشن) کے ایسے سوفٹ ویر بنانے اور پبلش کرنے کی اجازت نہیں دیتی جنہیں بعد میں غیر رمز شدہ نہ کیا جاسکے۔ جب تک کہ اس کی کوئی ‘ماسٹر کی’ نہ ہو۔
صدمہ!!
مذکورہ بالا باتیں صدمہ نہیں بلکہ خوش آئند ہیں کہ دنیا کے غریب ممالک بھی معلومات کی اعلی سے اعلی ٹیکنالوجی حاصل کرسکیں، لیکن صدمہ یہ ہے کہ ہمارے اکثر ماہرین (باہر سے لوٹے ہوئے بہت کم) تجارتی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔!! چنانچہ ہم اوپن سورس کی دنیا سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ خاص طور پر جبکہ اوپن سورس کے اکثر پراجیکٹ کا مصدر صرف ‘کوڈ’ کی صورت میں دستیاب ہوتا ہے نا کہ تیار حالت میں، اور جو بات سب سے افسوسناک ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ اور تعلیمی نصاب کے ماہرین بھی تجارتی دنیا سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ اوپر سے طرہ یہ ہے کہ ہمیں جو کچھ مِس ہوا ہے وہ کچھ کم نہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں سوفٹ ویر بنتے اور معدوم ہو جاتے ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم۔ مثال کے طور پر ایک سوفٹ ویر Vi کے نام سے بنتا ہے اور پھر Vi IMproved آتا ہے یعنی یہ Vi کی بہتر شکل ہے تو اگر ہم Vi کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تو ہمیں یہ کیسے معلوم ہو گا کہ VIM کیا ہے۔؟؟ اور یہی ہمارے ماہرین کی صفوں میں امیت کی ایک شکل ہے۔!!
اگر آپ کسی بڑی پاکستانی ویب سائٹ (جو بہت کم ہیں اور زیادہ تر رومن اردو استعمال کرتی ہیں) پر چلے جائیں تو دیکھیں گے کہ ہمارے اکثر ماہرین وطنِ عزیز کے باہر سے بات کر رہے ہوں گے۔ ممکن ہے کہ اب کچھ صورتحال مختلف ہو گئی ہو اور کچھ ماہرین وطنِ عزیز میں رہتے ہوئے بھی کام کر رہے ہوں مگر افسوس کہ ان کی اس طرح پذیرائی نہیں کی جاتی جتنی کہ ان کی وطنِ عزیز سے باہر ہونے پر کی جاتی ہے۔
ان مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ چیزوں کے ‘تسمیہ’ کا بھی ہے۔ یعنی چیزوں کے نام ان کے کام کے حساب سے نہیں لیئے جاتے بلکہ ان کے تجارتی نام استعمال کئیے جاتے ہیں مثال کے طور پر آپ نے کبھی کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا ہو گا جو ‘کولا’ طلب کر رہا ہو۔ بلکہ برانڈ نیم ‘پیپسی’ یا ‘کوکا کولا’ طلب کیا جاتا ہے۔ یہی بات ڈیٹرجنٹ پر بھی صادق آتی ہے۔ اور یہی بات اب کمپیوٹر سوفٹ ویر میں بھی داخل ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے اکثر صارفین کو یہ پتہ ہی نہیں کہ ‘مائکروسوفٹ ورڈ’ دراصل ‘ورڈ پراسیسر’ ہے۔ چنانچہ وہ اسے ‘مائکروسوفٹ ورڈ’ ہی کہتا ہے جو کہ اصل میں برانڈ نیم ہے اور یہی کلیہ وہ ہر نئے آنی والی چیز پر لاگو کرتا ہے۔ اس کے علاوہ غلط مفاہیم کی بھی کمی نہیں کہ بعض کے ہاں Bad sector ایک وائرس ہوتا ہے اور بعض لوگ سی ڈی کو تشابہ کی وجہ سے ‘کیسٹ’ سمجھتے ہیں۔!!
یہاں مسئلہ زیادہ یا کم جاہلوں کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ایسے لوگوں کو ایسے مراکز پر بٹھا دیا جاتا ہے جہاں ان کے فیصلے اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلاً بچوں کے ایک تعلیمی پروگرام میں ایک خاتون فرما رہی تھیں: ‘بچوں آج ہم مغناطیس بنائیں گے، پلاسٹک کی ایک کنگھی لائیں اور اسے کسی سوتی کپڑے پر رگڑیں پھر اس کنگھی کو کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے قریب لائیں آپ دیکھیں گے کہ ہمارا مغناطیس کاغذ کے ٹکڑوں کو اپنی طرف کھینچ لے گا’ اس بات میں دو آفتیں ہیں، پہلی یہ کہ ساکن بجلی مغناطیس نہیں ہوتی، اور دوسری یہ کہ مغناطیس کاغذ کو جذب نہیں کرتا۔!! اسی طرح نصاب کی بعض کتابوں میں (ایک نصاب ہو تو بتائیں) سوفٹ ویر کی تنصیب کچھ اس طرح سکھائی جاتی ہے ’setup چلائیں، Next پر کلک کریں، ایگریمنٹ قبول کریں’ یہاں بھی دو آفتیں ہیں، پہلی یہ کہ یہ نہیں کہا گیا کہ ایگریمنٹ پڑھیں، دوسری یہ کہ آپ ایک بچے پر سوفٹ ویر کی تمام تر قانونی ذمہ داریاں ڈال رہے ہیں جس کے تحت وہ (اور اس کے گھر والوں کو) سوفٹ ویر کی 30 سے 300 ڈالر کی قیمت ادا کرنے کے نہ صرف پابند ہیں بلکہ متوقع نقصانات کے بھی ذمہ دار ہیں۔!!
ایک اور مثال جو زیادہ افسوس ناک ہے وہ ایک ماہر کی ہے کو 2000 سے کچھ پہلے ٹی وی پر Y2K بگ پر کچھ اس طرح تبصرہ فرما رہے تھے: ‘یہ مسئلہ کمپیوٹر میں تاریخ کو صرف دو ڈیجٹ پر محفوظ کرنے کی وجہ سے پیدا ہو گا یعنی 2000، 00 ہو جائے گا اور چونکہ 00 کے بعد 99 کا ہندسہ آئے گا اس لیئے تاریخ کے پیچھے چلے جانے کی وجہ سے کمپیوٹر میں ایک خلفشار پیدا ہو جائے گا اور وہ حسابات میں غلطیاں شروع کر دے گا جس سے وائرس پیدا ہوسکتا ہے اور سکریں جل بھی سکتی ہے’ کس نے کہا ہے کہ کمپیوٹر کے جذبات ہوتے ہیں اور وہ خود ہی حسابات شروع کر دیتا ہے۔!! کس نے کہا ہے کہ وائرس خود ہی پیدا ہو جاتے ہیں اور یہ مسئلہ مانیٹر کی پکچر ٹیوب کو پھٹنے پر مجبور کر دے گا۔!!
سیٹ لائیٹ کے ایک چینل میں ایک اور ماہر فرما رہے تھے: ‘پہلا آپریٹنگ سسٹم ڈاس ہے جسے مائکروسوفٹ نے بنایا اور پھر مائکروسوفٹ نے ونڈوز 3۔1 اور 1995 میں ونڈوز 95 بنائی، اور پھر لینکس کمپنی نے ریڈ ہیٹ سسٹم بنایا اور لنڈوز کمپنی نے لنڈوز آپریٹنگ سسٹم جس میں لینکس کی طاقت اور ونڈوز کی سہولت جمع کر دی گئی’ اس قولِ شریف میں کم سے کم 7 غلطیاں ہیں، پہلی یہ کہ سب سے پہلا ڈاس مائکروسوفٹ نے نہیں بلکہ IBM نے بنایا تھا وہ بھی ورژن 3۔0 تک مائکروسوفٹ نے ڈاس 3۔1 بنایا تھا، دوم یہ کہ ڈاس سب سے پہلا آپریٹنگ سسٹم نہیں تھا بلکہ اس سے بیس سال پہلے یونکس کا پانچواں ورِژن تھا جو کہ وہ بھی پہلا نہیں تھا!! سوم یہ کہ ونڈوز 3۔1 آپریٹنگ سسٹم نہیں تھا، چوتھا یہ کہ ونڈوز 95، 1995 میں نہیں بلکہ 1993 میں جاری کی گئی تھی کیونکہ یہ عدالتوں میں پیٹنٹ کیس میں تاخیر کا شکار رہی، پانچواں یہ کہ لینکس کمپنی نہیں ہے!! kernel۔ORG، linux۔ORG، fsf۔ORG، gnu۔ORG یہاں ہاتھی جتنا ORG انہیں نظر نہیں آیا!! چھٹا یہ کہ ریڈ ہیٹ لینکس کا ورژن نہیں ہے بلکہ ایک ڈسٹرو ہے ساتواں یہ کہ لنڈوز بھی لینکس کی ایک ڈسٹرو ہے جس میں پہلے سے ہی wine شامل ہوتا ہے اور اس کی theme ونڈوز سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی!!
ہنسیں مت، یاد رکھیں کہ ہم امی ہیں جنہیں پڑھنا اور سمجھنا پسند نہیں، کیونکہ اگر cancel کے بٹن پر dismiss لکھ دیا جائے تو ہم کہتے ہیں کہ: ‘یہ پروگرام اب بہت مشکل ہو گیا ہے!!’ یاد رکھیں کہ ہم چیزوں کو اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح کہ ہم توقع کرتے ہیں یا جیسا کہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہوں، یعنی ہم پہلے ہی شرائط رکھتے ہیں، ہم مصدر سے زیادہ اشتہارات پر یقین کرنے والی قوم ہیں۔!!

***


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول