صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


انسانی حقوق اور فدائی حملے۔۔۔ اسلامی نقطۂ نظر 

عبد الکریم عثمان


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

ابتدائیہ

    اسلام آیا تو اس نے انسانی حقوق کی پاسداری اور ادائی کا ایک نظام بھی اپنے دور آغاز سے ہی دنیا کے سامنے پیش کیا۔ قبل از اسلام ’ متوازن انسانی حقوق‘ کے کسی نظام سے انسانی معاشرہ واقف نہ تھا، اندھیر نگری کا یہ عالم تھا کہ تمام حقوق قوت و طاقت کی بنا پر طے کیے جاتے تھے ،اور ان کے مطالبہ و ادائیگی کی مہم بھی اسی بنیاد پر چلائی جاتی تھی، گویا حقوق کی جنگ میں ہمیشہ حق پر، صاحب قوت و طاقت ہی ہوا کرتا تھا۔ کمزور اور ناتواں کا کسی چیز کا محض مطالبہ کر لینا بھی جرم تھا، غلام تو غلام آزاد انسانوں کی خرید و فروخت تک کرنے سے دریغ نہ ہوتا تھا۔ عورت معاشرہ میں بد نامی و رسوائی کا بدنما داغ سمجھی جاتی تھی۔

    ہمارے پیش نظر اس وقت خاص طور پر غیرمسلموں کے حقوق کا مطالعہ ہے۔ اس میں مندرجہ ذیل اسلامی احکام کا حاصلِ مطالعہ اور خلاصہ پیش کیا جائے گا اور اسی پس منظر میں ’فدائی حملوں ‘ سے بھی بحث ہو گی:

 ۱۔    عمومی حالات میں غیر مسلموں کے حقوق

۲۔    حالت جنگ میں انسانی حقوق

۳۔     انسانی حقوق کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ’فدائی حملوں ‘ کا جواز و عدم جواز


عام حالات میں غیر مسلموں کے  حقوق


    ’عام حالات ‘ سے مراد یہ ہے کہ حالت امن میں اور عدم حالت جنگ میں اسلام نے غیر مسلموں کو کیا حقوق دیے ہیں ؟

    اسلام کی تعلیمات کی وسعت و ہمہ گیری کی بنا پر خاص اس موضوع پر اس قدر تفصیلی احکام موجود ہیں کہ ان کے بیان کے لئے ایک مکمل و مستقل کتاب درکار ہے ، علامہ ابن القیم الجوزی ؒ نے ’ احکام اہل الذمہ‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب دو جلدوں میں (ایک ہزار پینسٹھ(۱۰۶۵) صفحات پر مشتمل ) لکھی ہے ، جس میں غیر مسلموں کی مذہبی ، معاشی ، معاشرتی آزادی اور ان کے حقوق کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اسکے علاوہ بھی بہت سی کتب اس موضوع پر موجود ہیں۔

    ذیل میں نمونہ کے طور پر غیر مسلموں کے صرف ان حقوق کو ذکر کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے جو زیر بحث موضوع سے متعلق ہیں۔


غیر مسلموں کی معاشرتی آزادی اور ان کی عصمت و آبرو کا تحفظ


    ہر انسانی معاشرہ میں عزت و آبرو کی حفاظت بنیادی اہمیت رکھتی ہے ، جس معاشرہ میں انسانوں کی عزت و آبرو ہی محفوظ نہ ہو وہ اپنی تمام تر مادی ترقیوں کے باوجود انسانی معاشرہ کہلانے کا مستحق نہیں۔

    اسلام نے غیر مسلموں کی عزت و آبرو کی حفاظت کا جو بندوبست کیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مسلم کسی ذمیہ یامستأمنہ ( غیر مسلمہ)  کے ساتھ زنا کا ارتکاب کر لے تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔ قاضی ابویوسف نے لکھا ہے:

لم یشترط الفقہاء لوجوب حد الزنیٰ علی المسلم أن یکون زناہ بمسلمۃ ، انما الذی اشترطوہ لإقامۃ حد الزنیٰ علیہ ہوأن یطأ الرجل امرأۃ محرمۃ علیہ من غیرعقد…… فلا یباح للمسلم ان یزنی، فاذا زنی أقیم علیہ الحد سواء کان المزنی بھا مسلمۃ أو ذمیۃ أومستأمنۃ،و مع ذالک فقد صرح بعض الفقہاء بأن المسلم اذا زنیٰ المستأمنۃ حد حد الزنیٰ۔…  ۱؎

فقہاء نے مسلم پر زنا کی سزا ( رجم یا جلد ) کے وجوب کے لئے صرف مسلمان عورت سے زنا کرنا شرط قرار نہیں دیا ہے، بلکہ انہوں نے زانی مسلم پر حد قائم کرنے کے لئے یہ شرط قرار دی ہے کہ وہ اپنے اوپر حرام کسی بھی عورت کے ساتھ بغیر اس سے عقد (نکاح یا تملیک ) کئے، جنسی عمل کرے … لہٰذا کسی مسلمان کے لئے روا نہیں کہ وہ زنا کرے اگر اس نے زنا کیا تو اس پر ہر صورت میں حد جاری ہو گی، خواہ وہ عورت جس سے زنا کیا گیا ہے مسلمان ہو یا ذمی یامستأمنہ۔ اس کے باوجود بعض فقہاء نے تو صراحۃً کہا ہے کہ مسلمان اگر مستأمنہ (غیر مسلمہ) سے زنا کرے گا تو اس پر حد زنا قائم کی جائے گی۔

    اس سے معلوم ہوا کہ اسلام نے جس طرح مسلمان عورت کی عصمت و آبرو کے تحفظ کا بندوبست کیا ہے اور اس پر کسی بھی قسم کی آنچ نہ آنے کے لئے حدود کا نظام قائم کیا ہے وہی نظام غیر مسلم عورت کی عصمت کی حفاظت کے لئے بھی رکھا ہے۔

اقتباس

***


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                    ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول