صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


 فہم قرآن کے بعض اصول

امین الحسن

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

فہم قرآن کے اندرونی ذرائع

(1 پس منظر سے واقفیت

پس منظر سے واقفیت سے آیات کا مفہوم متعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مثلاً 59:7، 53:3-8، 4:15’16، 4:43 ان میں موخر الذکر آیت کو لیجئے جس میں کہا گیا کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نشے کی حالت میں نماز میں مصروف نہ ہو جب تک کہ تم یہ نہ جاننے لگو کہ کیا کہہ رہے ہو۔ جب کہ سورہ مائدہ کی آیت 90 شراب کو قطعی طور پر حرام قرار دیتی ہے۔ پس منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ حرمت شراب سے قبل ، نشہ بحالت نماز ممنوع تھا، بقیہ اوقات میں ممنوع نہیں تھا۔ پس منظر سے عدم واقفیت کے نتیجے میں ایک عام آدمی قرآن میں بعض اوقات بادی النظر میں تضاد پائے گا۔


(2 مخاطب کو سمجھنا

بعض دفعہ بات مشرکین سے جاری ہے، اچانک روئے سخن نبی کی طرف مڑ جاتا ہے۔ بعض دفعہ بظاہر خطاب آپ سے ہوتا ہے مگر اصلاً سنانا مقصود ہوتا ہے، منافقین کو اس طرح مخاطبین کی تبدیلی کو ملحوظ نہ رکھنے کے سبب کبھی پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ نبیؐ سے اتنی سخت بات کیوں کہی گئی حالانکہ وہ عتاب منافقین یا مشرکین پر ہوتا ہے مگر خدا ان سے اس وقت خطاب نہیں کرنا چاہتا۔ کبھی مخاطب بھی بدل جایا کرتے ہیں۔ کہیں اللہ کلام کر رہا ہوتا ہے، اچانک جبرئیل کی زبان سے کچھ بات ادا ہوتی ہے۔کبھی کسی کا قصہ سنایا جا رہا ہوتا ہے، اچانک اللہ تعالیٰ اپنی کچھ بات وہاں موقع کی مناسبت سے عرض کر دیتا ہے۔ اس فرق کو سمجھنا مفہوم کو سمجھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔


(3 محکمات اور متشابہات کا علم

’محکمات وہ آیات ہیں جن کی زبان بالکل صاف ہے، جن کا مفہوم متعین کرنے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے، جن کے الفاظ معنی و مدعا پر صاف اور صریح دلالت کرتے ہیں‘‘۔ جب کہ متشابہات کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے مفہوم میں اشتباہ کی گنجائش ہے۔ جب کہ قرآن کو کسی بات میں شک، تردد، ابہام، انتباہ کی گنجائش ہی نہیں۔ ’’متشابہات سے مراد وہ آیتیں ہیں جن میں ہمارے مشاہدات و معلومات کی دسترس سے باہر کی باتیں تمثیلی و تشبیہی رنگ میں قرآن نے بتائی ہیں۔ جیسے فرشتوں کے پر’ جہنم کی آگ، جنت کے باغات و انعامات، جان کنی کے وقت کی کیفیات وغیرہ۔


(4 ناسخ و منسوخ کا علم

قرآن کے بعض احکامات ابتدائی زمانہ میں کچھ تھے، جیسے جیسے سماج پختہ ہوتا گیا، انسانی عادت و اطوار انہی تعلیمات میں ڈھلتے چلے گئے۔ ویسے ویسے احکام کو بتدریج حتمی شکل دے دی گئی۔سورہ بقرہ آیت 180 میں بتایا گیا کہ مرنے والا اپنی جائیداد کے بارے میں وصیت کر جائے کہ کس کو کتنا ترکہ ملے۔ دھیرے دھیرے امت شریعت کی حامل بنتی چلی گئی تو سورہ نساء میں پہنچ کر آیا 11-13 بتا دیا گیا کہ وراثت میں کس کا کتنا حصہ مقرر ہے۔ وصیت سے اسے آگے پیچھے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہاں حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے والا اپنی مرضی سے وارثین کے علاوہ کسی اور کے لیے اپنے مال میں سے ایک تہائی کی وصیت کرسکتا ہے۔ اس طرح بقرہ آیت 180 کا حکم منسوخ ہے اور نساء کی آیات نے اس کی تجدید کر دی۔ اس نکتے کو ملحوظ نہ رکھنے کی صورت میں ایک عام قاری کنفیوژن کا شکار ہو جائے گا کہ آخر کس حکم پر عمل ہو۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول