صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


فہم قرآن 

محمد علی

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

قرآن اور فہم قرآن

    قرآن ،  ساری انسانیت کو بھیجا ہوا اللہ  کے اس پیغام کا نام ہے،  جو اس نے اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر نازل کیا اوراس کے ذریعے بنی نوع انسان کو تاریکیوں سے نجات دلا کر نور سے نوازا ۔  یہ وہ شمع ہے جس نے ،  جب ساری کرۂ ارض پر اندھیرا تھا ،  اسے روشن کیا ۔  یہ وہ چراغ ہے جس نے ایک زوال پذیر عرب قوم کو ترقی و بلندی کے ایسے مقام پر لا کر کھڑا کر دیا ،  جہاں ان کے پاس دنیا کی قیادت ہوا کرتی ۔  اسی کتابِ الٰہی کے باعث یہ وہ امت بن گئی جو زندگی کے تمام پہلوؤں میں ساری قوموں سے سبقت لے گئی ،  خواہ اس کا تعلق اخلاق و روحانیت سے ہو یا سائنس و صنعت سے ،   قانون و معاشرت سے ہو یا معیشت و سیاست سے !  اسلامی تہذیب اور تمدن باقی قوموں کے لئے  بلند معیار بن گئے اور ان کے لوگ دور دور سے اسلامی درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے اور اس میں نہایت فخر محسوس کرتے ۔  یہ وہ دور تھا جس میں کثیر اسلامی فتوحات انجام پاتیں ، جس کی بدولت لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوتے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیاں اسلام کے مطابق ڈھالتے ،  حتیٰ کہ کفار بھی اسلامی معاشرے میں بسنے کے خواہاں ہوا کرتے ۔  یہ اس لئے کیونکہ وہاں صرف مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو ہی نہیں تحفظ ملا کرتا تھا بلکہ کفار کو بھی اس کی ضمانت دی جاتی تھی اور جہاں انہیں بھی ،  مسلمانوں کی طرح،  عدل و انصاف ملا کرتا تھا ۔  یہ سب کچھ ایک ایسی اسلامی ریاست کی آغوش میں ہوا ،  جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت یعنی قرآن کو انسانوںکی زندگیوں پر نافذ کرتی اور معاشرے میں ان کے تعلقات کو قرآنی افکار و احکام کے مطابق منظم بھی ۔  امت کی اس زبردست کامیابی ،  عظمت اور شان و شوکت کی صرف ایک ہی وجہ تھی :  قرآن کی صحیح تفہیم اور انفرادی و اجتماعی سطح پر اس کا مکمل اور جامع نفاذ۔

    آج یہ امت ذلت و رسوائی کا شکار ہے اور دشمنوں نے اسے چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے،  جبکہ اس کے لئے اپنا دفاع کرنا ہی محال نظر آتا ہے۔  آج یہ امت فکری ،  اقتصادی ،  سیاسی اور عسکری لحاظ سے مغلوب ہے باوجودیکہ دنیا کے بیشتر وسائل اس میں پائے جاتے ہیں۔  آج امت کے ( کئی) فرزند مغربی افکار و نظاموں میں ہمارے مسائل کے حل ڈھونڈ رہے ہیں جبکہ فکر و ہدایت کا سرچشمہ ،  قرآن ،  ان کے پاس ہے ،  اگرچہ وہ اسلامی ریاست موجود نہیں رہی جو امت اور اسلام کی محافظ و نگران ہوا کرتی تھی ۔  امت کے زوال کا واحد سبب قرآن و اسلام کی سمجھ میں ضعف ہے۔  مسلمانوں کے ذہنوں میں اسلامی فکر تب مبہم ( غیر واضح ) ہونا شروع ہوا جب اجنبی افکار اسلام میں داخل ہوئے ۔  
 
    یہ سلسلہ علمِ کلام سے شروع ہوا جہاں ایسے بے شمار فرقے معرضِ وجود میں آئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات پر بحث کی اور اس حوالے سے مختلف نظریات اپنائے ۔  یوں جبریہ ،  قدریہ ،  معتزلہ ،  اشعریہ وغیرہ جیسے فرقے قائم ہوئے جو یونانی فلسفے سے متاثر تھے اور اس کے منطق سے بھی ۔  اس کے نتیجے میں انہوں نے ایسے مسائل میں بحث کرنا شروع کیا ،  جن پر عقل کوئی فیصلہ دینے سے قاصر تھی ۔  دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا انسان کی عقل سے ماورا اور اس کے حدود سے باہر ہونے کے باوجود ،  ہر ایک فرقے نے اس مسئلے میں عقلی طور پر اپنا اپنا موقف ثابت کرنے کی کوشش کی۔  یہ طریقہ صحابہ کرام ؓ کے تعمل کے بالکل برعکس تھا ،  جو ایسی مباحث سے گریز کیا کرتے تھے اور جب کوئی آیت ان کی سمجھ سے باہر ہوتی تو بس اس پر ایمان لایا کرتے ۔  لیکن متکلمین ( علمِ کلام کے علماء) کا رجحان یہ ہوا کرتا کہ پہلے وہ کسی موقف کو اختیار کرتے تھے اور بعد میں قرآن سے اسے ثابت کرنے کی کوشش ہوتی اور اس سلسلے میں بے شمار کتب لکھی جاتیں جن میں قرآنی تفاسیر بھی شامل ہوتیں۔  یوں ان تحریکوں نے امت کو فضول مسائل میں مشغول کر کے انہیں بے مقصد الجھا دیا اور انہیں اپنے نظریات سے متاثر بھی کیا ۔  ابہام کی دوسری وجہ ہندی فلسفہ تھا جو دین اور دنیا کی علیحدگی کا علمبردار ہے۔  روح اور مادہ کی جدائی اس میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے یعنی اگر انسان خدا کے قریب آنا چاہتا ہے تو اسے اپنی جسمانی حاجات کو ترک کرنا پڑے گا ،  اور اگر وہ اپنی دنیوی حاجات کو پورا کرتا ہے تو یہ خدا سے دور ہو تا ہے ۔  اسی کے نتیجے میں صوفیت کا آغاز ہوا اور بعض اسلامی نصوص کی غلط تاویل کرنے کے باعث صوفیا نیء زندگی کے میدان سے علیحدگی اختیار کر لی اور اسلام کی اس غلط سمجھ کی طرف لوگوں کو پکارنا شروع کیا حتیٰ کہ کئی نسلیں اسی میں برباد ہو گئیں۔  ابہام کی تیسری وجہ مغربی فکر کا اثر ہے جو مسلمانوں میں سرایت کر گیا ہے ۔  مغرب کی ترقی سے متاثر ہو کر امت کے فرزندوں نے اس کے افکار اور نظاموں کو اپنایا اور اب تک ان پر اعتماد رکھتے ہیں ۔  وہ تحریکیں جو اس اثر کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئیں وہ ،  بالخصوص،  دو طرح کی تھیں ۔  ایک خالص سکیولر نوعیت کی اور دوسری نام نہاد اسلامی ۔  دوسری نوعیت کی تحریک نے مغربی افکار کے اسلام سے کوسوں دور ہونے کے باوجود ،  شرعی نصوص کی ایسی تاویلیں کیں ، کہ یہ اسلام سے ہم آہنگ ہیں ۔  یوں ان کفریہ افکار کا اسلامی جواز پیش کرنے کا رجحان شروع ہوا جو استعمار کی حمایت سے ،  اب تک جاری ہے۔  ان تمام اجنبی فلسفوں نے مسلمانوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کئے اور مسلمانوں کو فاسد عقائد اپنانے پر آمادہ کیا۔  اسلامی فہم کے ضعف کی وجہ عربی زبان سے غفلت ہے ۔  یہ اس کے باوجود کہ عربی زبان اسلام کو گہرائی سے سمجھنے کی چابی ہے ۔  یہ سلسلہ تب شروع ہوا جب اسلامی ریاست نے عربی زبان پر توجہ دینا چھوڑ دیا اور بالآخر اسے سرکاری زبان ہونے کے درجے سے گرا دیا ۔  پھر ایسے لوگ آئے جنہوں نے عربی زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود اللہ کے کلام کے بارے میں اپنی آراء دینے کی جراَت کی۔  اس کے علاوہ عربی زبان سے غفلت اجتہاد کے فقدان کا باعث بنی اور اندھی تقلید کا بھی۔  یہ اس کے باوجودیکہ زندگی کے نئے ابھرتے ہوئے مسائل کے اسلامی حل پیش کرنے کے لئے اجتہاد ناگزیر ہے۔  یہ ہے امت کے زوال کی حقیقت۔ 

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول