صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کا فتوائے جہاد اور علامہ فضلِ حق خیرآبادی کا قائدانہ کردار
ترتیب و تلخیص
ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
از راجا غلام محمد(صدر ادارۂ ابطالِ باطل، لاہور
آئیے! علامہ فضل حق خیرآبادی کے فتوائے جہاد کی صدائے باز گشت سناتا ہوں :
’’علما نے جس جس طرح بغاوت کو منظم کیا، اس کو مفصل بیان کرنے کے لیے تو ایک علاحدہ کتاب کی ضرورت ہے مگر ان کا کچھ تذکرہ ان صفحات پر کیا جا رہا ہے۔ اس حقیقت سے بڑے بڑے مورخ بھی انکار کی جرات نہیں کرسکے ہیں کہ یہ علما عوام میں بے حد مقبول تھے۔ ان کی تحریر و تقریر کا بڑا اثر ہوتا تھا۔ چناں چہ دہلی میں جنرل بخت خاں کی تحریک پر مولانا فضل حق خیرآبادی اور دوسرے علما ے دہلی نے جو جہاد کا فتویٰ دیا، اس کے بارے میں مولوی ذکاء اللہ نے بھی اپنی تاریخ میں اقرار کیا ہے کہ اس سے مذہبی جوش و خروش بہت بڑھ گیا۔‘‘
(خورشید مصطفی رضوی، مورخ و ادیب: جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء مکتبۂ برہان دہلی، ۱۹۵۹ء، ص ۴۵۵)
’’مولانا (فضل حق)کے دہلی پہنچنے سے پیش تر بھی لوگوں نے جہاد کا پرچم بلند کر رکھا تھا۔ مولانا پہنچے تو مسلمانوں کو جنگِ آزادی پر آمادہ کرنے کی غرض سے باقاعدہ ایک فتویٰ مرتب ہوا جس پر علما ے دہلی کے دستخط لیے گئے۔ میرا خیال ہے کہ یہ فتویٰ مولانا فضل حق ہی کے مشورے سے تیار ہوا تھا اور انھوں نے علما کے نام تجویز کیے، جن پر دستخط لیے گئے۔‘‘
(غلام رسول مہر: ۱۸۵۷ء کے مجاہد، کتاب منزل، لاہور ۱۹۶۰ء، ص ۲۰۶)
پاکستان کے نام ور شاعر ناصر کاظمی اور مشہور کالم نویس انتظار حسین کی ادارت میں شائع ہونے والے مجلہ ’’خیال‘‘ کے سن ستاون نمبر میں شکور احسن صاحب، مفتی صدر الدین آزردہؔ پر مضمون لکھتے ہوئے علامہ کے فتوائے جہاد کا ذکر کرتے ہیں :
’’جب برطانوی استعمار کے خلاف ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ شروع ہوا تو بعض شاعروں، ادیبوں اور عالموں نے اس میں سرگرمی سے حصہ لیا اور انگریزی حکومت کا اقتدار بحال ہو جانے کے بعد ان پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ گئے۔ مولانا فضل حق کو جہاد کا فتویٰ صادر کرنے کے جرم میں انڈمان بھیجا گیا۔ صہبائیؔ کو پھانسی کے تختہ پر لٹکایا گیا۔ شیفتہؔ کو قید و بند کی مصیبتیں برداشت کرنی پڑیں۔‘‘
(مجلہ ’’خیال‘‘ لاہور، سن ستاون نمبر ص ۲۶۸)
مفتی صدرالدین آزردہؔ ہی کے بیان میں مفتی انتظام اللہ شہابیؔ فتوائے جہاد کی تیاری کی ساری ذمہ داری علامہ فضل حق پر ڈالتے ہیں :
’’ہنگامہ ۱۸۵۷ء میں رو نما ہوا۔ مولانا فضل حق الور سے دہلی آئے۔ جنرل بخت خاں نے نقشۂ اقتدار جما رکھا تھا۔ استفتا مولانا نے لکھا۔ مفتی صاحب و دیگر علما نے فتویٰ دیا ۔۔۔مولانا فضل حق کو اقرارِ جرم پر انڈمان جانا پڑا۔‘‘
(انتظام اللہ شہابیؔ، مفتی: غدر کے چند علما، دینی بک ڈپو، دہلی، ص ۴۸)
رئیس احمد جعفری معروف مورخ و ادیب اور دانش ور گذرے ہیں، جنہوں نے تمام عمر جنگِ آزادی کی مختلف تحریکات کی جزئیات کھنگالنے میں گذار دی۔ موصوف اپنی ضخیم کتاب ’’بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ مولانا فضل حق خیرآبادی علمی قابلیت میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ ان کو فتوائے جہاد کی پاداش اور جرمِ بغاوت میں انڈمان بھیج دیا گیا۔‘‘
(رئیس احمد جعفری، مورخ: بہادر شاہ ظفر اور ن کا عہد، کتاب منزل، لاہور، ۱۹۵۶ء، ص ۳۱۵)
محمد اسماعیل پانی پتی اپنے مضمون ’’۱۸۵۷ء میں علمائے کرام کا حصہ‘‘ میں علامہ فضل حق خیرآبادی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں :
’’جب ۱۸۵۷ء کا ہنگامۂ عظیم دہلی میں رونما ہوا تو(علامہ فضل حق خیرآبادی) فوراً دہلی پہنچے اور جہاد کا فتویٰ دیا۔ جنرل بخت خاں کمانڈر اِن چیف افواجِ ظفر سے ملے اور اس کی بڑی اعانت اور امداد کی ۔۔۔لکھنؤ میں ان پر مقدمہ قائم ہوا۔ نہایت بے باکی اور صفائی کے ساتھ بغیر ذرّہ بھر ہچکچاہٹ اور تذبذب کے اقرار کیا کہ ہاں ! میں نے فتویٰ لکھا اور اس پر دستخط کیے اور جو کچھ میں نے کیا اپنے خیال میں ٹھیک کیا۔‘‘
(ماہ نامہ ’’لیل و نہار‘‘ لاہور، جنگِ آزادی نمبر ۱۸۵۷ء، بابت مئی ۱۹۵۷ء ص ۱۲/۲۸)
٭٭٭