صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
نماز سے متعلق اہم فتاوے
عبد العزیز بن عبد اللہ بن بازؒ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اہم فتاوے
موجودہ دور میں بہت سے لوگ نماز کی ادائیگی میں سستی برتتے ہیں، اور بعض توایسے ہیں جو بالکل پڑھتے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟ نیز ان لوگوں کے تعلق سے ایک مسلمان اور خصوصاً اس کے والدین، اہل و عیال اور دیگر عزیز و اقارب پرکیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے ؟
جواب :
نماز میں سستی برتنا بہت بڑا گناہ نیز منافقوں کی خصلت ہے، اللہ تعالىٰ کا ارشاد ہے :
إِنَّ الْمُنَافِقِینَ یخَادِعُونَ اللّہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإِذَا قَامُواْ إِلَى الصَّلاَة قَامُواْ کسَالَى یرَآؤُونَ النَّاسَ وَلاَ یذْکرُونَ اللّہَ إِلاَّ قَلِیلاً (142) سورة النساء
بے شک منافق اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کرتے ہیں، حالانکہ اللہ نے ہی انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے، اور جب یہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توالساتے ہوئے، لوگوں کو دکھاتے ہیں، اور یہ اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔
نیز منافقین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا :
وَمَا مَنَعَہُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْہُمْ نَفَقَاتُہُمْ إِلاَّ أَنَّہُمْ کفَرُواْ بِاللّہِ وَبِرَسُولِہِ وَلاَ یأْتُونَ الصَّلاَۃِ إِلاَّ وَہُمْ کسَالَی وَلاَ ینفِقُونَ إِلاَّ وَہُمْ کارِہُونَ (54) سورة التوبة
اور ان کی طرف سے ان کی خیرات کے قبول نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا، اور یہ نماز کے لئے نہیں آتے مگرالساتے ہوئے، اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو برے دل سے۔
نیز نبیؐ نے ارشاد فرمایا :
" منافقوں پرسب سے گراں عشاء اور فجر کی نماز ہے، اور اگر انہیں ان کے اجر و ثواب کا علم ہو جائے تو کبھی پیچھے نہ رہیں گے، چاہے سرین کے بل گھسٹ کر ہی کیوں نہ آنا پڑے " (متفق علیہ)
لہذا ہرمسلمان مرد و عورت پرسکون و اطمینان، خشوع و خضوع اور حضور قلب کے ساتھ وقت پر پنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی واجب ہے، اللہ تعالىٰ کا ارشاد ہے :
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ ہُمْ فِی صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ (1۔2) سورة المؤمنون
فلا ح یاب ہو گئے وہ مومن جو اپنی نماز میں خشوع برتتے ہیں
اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ جب ایک نابینا صحابی نے اپنی نماز غلط طریقے سے ادا کی اور اس میں اطمینان وسکون ملحوظ نہیں رکھا تو آپ نے انہیں نماز دہرانے کا حکم دیا۔
مردوں کے لئے خاص طورپرمسجد میں مسلمانوں کے ساتھ با جماعت نماز ادا کرنا ضروری ہے، جیسا کہ نبیؐ کا ارشاد ہے :
"جو شخص اذان سن کر بلا عذر مسجد نہ آئے اس کی نماز درست نہیں "(اسے ابن ماجہ، دارقطنی، ابن حبان اور حاکم نے بسند صحیح روایت کیا ہے )۔
اور جب عبد اللہ بن عباسؓ سے دریافت کیا گیا کہ عذر کیا ہے ؟ تو فرمایا ":خوف یا بیماری"
اسی طرح صحیح مسلم میں ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے مسجد لے جانے والا کوئی نہیں، تو کیا میرے لئے اجازت ہے کہ اپنے گھر ہی میں نماز پڑھ لیا کروں ؟ آپ نے انہیں اجازت دے دی، مگر جب وہ واپس چلے تو پھر انہیں بلایا اور پوچھا :"کیا تم اذان سنتے ہو ؟جواب دیا :ہاں، آپ نے فرمایا :"پھرتومسجد میں آ کر ہی نماز پڑھو"۔
نیز ابو ہریرہؓ ہی سے ایک دوسری روایت ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا :
"میں
نے ارادہ کیا کہ حکم دوں اور نماز قائم کی جائے اور کسی شخص کو مقرر کر
دوں جو لوگوں کو نماز پڑھائے۔ پھر میں کچھ لوگوں کو لے کر جن کے ساتھ
لکڑیوں کے گٹھے ہوں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو جماعت میں حاضر نہیں ہوتے،
اور ان کے ساتھ ان کے گھروں کوآگ لگادوں "(متفق علیہ)
مذکورہ بالا احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز با جماعت مردوں کے حق میں واجب ہے، اور جماعت سے پیچھے رہنے والا عبرتناک سزاکامستحق ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالىٰ تمام مسلمانوں کے حالات درست فرمائے اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ (آمین)
رہا سرے سے نماز ہی چھوڑ دینا، چاہے کبھی کبھار ہی کیوں نہ ہو، تو علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق یہ کفر اکبر ہے بھلے ہی وہ نماز کے وجوب کا منکر نہ ہو۔ اور اس حکم میں مرد و عورت دونوں یکساں ہیں۔ نبیؐ کا ارشاد ہے :
"آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے "(صحیح مسلم)
ایک دوسری حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا :
" ہمارے اور ان(کافروں ) کے درمیان نماز کا فرق ہے، توجس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا " (اس حدیث کو امام احمد اور ائمہ سنن نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ )
نیز اس مفہوم کی اور بھی بہت سی حدیثیں وارد ہیں۔
مگر جو شخص نماز کے وجوب کا منکر ہو بھلے ہی وہ نماز پڑھتا ہو، تو اہل علم کے اجماع کے مطابق وہ کافر ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اس بری خصلت سے محفوظ رکھے۔ (آمین)
تمام مسلمانوں کیلئے باہم حق بات کی نصیحت کرنا نیز نیکی اور تقوىٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ جو شخص نماز سے پیچھے رہتا، یا نماز میں سستی کرتا، بعض اوقات بالکل نماز پڑھتا ہی نہ ہو اسے اللہ کے غضب و عقاب سے ڈرنا چاہئے۔ خصوصاً اس کے ماں، باپ، بھائی، بہن، اور گھر والوں کو اسے برابر نصیحت کرتے رہنا چاہئے، یہاں تک کہ وہ راہ راست پر آ جائے۔ ایسے ہی اگر عورتیں نماز میں سستی کریں یا چھوڑ دیں، تو انہیں بھی نصیحت کرتے ہوئے اللہ کی ناراضگی اور اس کے عقاب سے ڈرانا چاہئے۔ بلکہ نصیحت نہ قبول کرنے کی صورت میں ان کا بائیکاٹ کرنا اور ان کے ساتھ مناسب تادیبی کارروائی کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ یہی باہمی تعاون اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا تقاضا ہے جسے اللہ تعالىٰ نے اپنے بندوں پر واجب قرار دیا ہے۔ اللہ تعالىٰ کا ارشاد ہے :
( وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیاء بَعْضٍ یأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَینْہَوْنَ عَنِ الْمُنکرِ وَیقِیمُونَ الصَّلاَة وَیؤْتُونَ الزَّکاة وَیطِیعُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَئِک سَیرْحَمُہُمُ اللّہُ إِنَّ اللّہَ عَزِیزٌ حَکیمٌ (71) سورة التوبۃ
مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ یہ بھلی بات کا حکم دیتے اور بری بات سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کا کہا مانتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا۔ بیشک اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
اور نبیؐ نے ارشاد فرمایا :
" جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو، اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھیں تو انہیں مارو اور ان کے بسترعلیحدہ کر دو"
مذکورہ حدیث میں جب سات سال کے بچوں اور بچیوں کو نماز کا حکم، اور دس برس کی عمر میں نماز چھوڑنے پر مارنے کا حکم دیا جا رہا ہے تو بالغ شخص کو نماز کا حکم دینا، نیزسستی و کوتاہی پر نصیحت کرتے ہوئے اس کے ساتھ مناسب تادیبی کارروائی کرنا بدرجۂ اولی واجب ہو گا۔
آپس میں حق بات کی تلقین اور حق کی راہ میں پیش آمدہ مصائب پر صبر و تحمل ضروری ہے، کیونکہ اللہ تعالىٰ کا ارشاد ہے :
وَالْعصر إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (1۔3) سورة العصر
قسم ہے عصر کے وقت کی، بیشک سارے انسان گھاٹے میں ہیں، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے، اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق پر چلنے کی اور مصیبت میں صبر کرنے کی تلقین کرتے رہے۔
اور جو شخص بالغ ہو جانے کے بعد نماز نہ پڑھے اور نہ ہی نصیحت قبول کرے، تو اس کا معاملہ شرعی عدالت میں پیش کیا جائے گا، تاکہ اس سے توبہ کرائی جائے۔ اگر توبہ کر کے راہ راست پر آ جاتا ہے تو ٹھیک، ورنہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی مسلمانوں کے حالات درست فرمائے، انہیں دین کی سمجھ دے، نیکی و تقوىٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے، بھلی بات کا حکم دینے، بری بات سے روکنے، حق بات کی تلقین اور راہ حق میں پیش آمدہ مصائب پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭