صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
فساد فی الارض کا مالی اور معاشی پہلو
قرآن مجید کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ابتدائیہ
قرآن مجید مختلف اعمال اور رویوں کے لئے فساد فی الأرض کا استعمال کرتا ہے۔قرآن مجید میں اس لفظ کا بکثرت استعمال اسے ایک قرآنی اصطلاح کا درجہ دیتا ہے۔یہ اصطلاح بڑی معنی خیز ہے۔ یہ زمین انسانوں کے لئے بنائی گئی ہے، اور تا قیامت پیدا ہونے والے انسانوں کا واحد ٹھکانہ ہے، اگر کسی فرد یا گروہ کا رویہ اس ٹھکانے کو نقصان پہونچانے یا برباد کرنے کا سبب بنتا ہے تو اس کے خلاف سارے انسانوں کا اٹھ کھڑا ہونا عین تقاضائے عقل و فطرت ہے۔ کسی برائی کو فساد فی الأرض کہہ کر قرآن مجید اس مسئلہ کو انسانوں کا ذاتی مسئلہ بنا دیتا ہے، کہ اسے حل کرنے کی ذمہ داری انہیں خود آگے بڑھ کر قبول کرنا چاہئے،کسی عمل کے فساد فی الأرض ثابت ہو جانے کے بعد اس کے خلاف احتجاج ہر فرد کے اندر پیدا ہو جانا عین متوقع ہے ما سوا اس کے جس کا اپنا مفاد اس فساد سے وابستہ ہو چکا ہو۔
یوں تو فساد فی الأرض کا اطلاق ان ساری برائیوں پر ہوتا ہے جن کا ارتکاب کرہ ارض پر کیا جائے، لیکن قرآن مجید کے استعمالات بتاتے ہیں کہ معاشی انحراف اور مالی جرائم سے اس لفظ کا گہرا تعلق ہے۔غالباً اس لئے کہ زمین ان وسائل کا مخزن و منبع ہے جن پر انسانی زندگی کی بقاء کا انحصار ہے۔
قرآن مجید کے استعمالات کے علاوہ اہل لغت کی صراحتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں بھی فسادکے لفظ کا اطلاق مالی جرائم پر خصوصیت کے ساتھ ہوتا ہے، فیروز آبادی لکھتا ہے: والفساد: أخذ المال ظلما، والمفسدۃ ضد المصلحۃ، وتفاسدوا قطعوا الأرحام(۱)۔ تاج العروس میں مزید وضاحت ہے: والفساد: أخذ المال ظلمابغیر حق، ھکذا فسر مسلم البطین قولہ تعالی: للذین لا یریدون علوا في الأرض ولا فسادا۔ (۲)
فساد فی الأرض اور قوم مدین کے مالی جرائم
اس
لفظ کا معاشی انحراف سے کس قدر گہرا تعلق ہے اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا
ہے کہ قرآن مجید میں مدین کی قوم کا تذکرہ کم و بیش تفصیل سے چار مقامات
پر ہے سورہ اعراف آیت نمبر ۸۵ تا ۹۳، سورہ ہود آیت نمبر ۸۴ تا ۹۵،سورہ
شعراء آیت نمبر ۱۷۶ تا ۱۹۰ ،اورسورہ عنکبوت آیت نمبر ۳۶ اور ۳۷۔ اور چاروں
جگہ فساد فی الأرض کا بھی ذکر موجود ہے ، یہ اہتمام ہمیں کسی اور قوم کے
واقعہ میں نہیں ملتا ، گویا قوم مدین کے جرائم سے جو بیشتر مالی تھے اس
لفظ کی گہری مناسبت ہے ۔تین مقامات پر ان کے مالی جرائم کا تذکرہ ہے اور
اس کے ساتھ انہیں فساد فی الأرض سے باز رہنے کو کہا گیا ہے ، جبکہ سورہ
عنکبوت میں ناپ تول سے متعلق مالی جرائم کی تفصیل کے بجائے صرف ولا تعثوا
فی الأرض مفسدین کہا گیا، گویا قوم مدین کی برائیوں کا عنوان فساد فی
الأرض ہے کہ اس کے ذکر سے ہی برائیوں کی نوعیت واضح ہو جاتی ہے۔جس طرح قوم
لوط کی برائیوں کا عنوان فحاشی اور مجرمانہ عمل ہے۔
قوم مدین کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ وہ ناپ تول میں کمی کرتے تھے، نیت یہ ہوتی کہ فریق ثانی کی مرضی کے بغیر بلا عوض اس کا کچھ اور مال بھی ہاتھ آ جائے۔ اس رویہ کا سب سے خطرناک پہلو یہ تھا کہ ناپ تول کا پورا نظام اپنا اعتبار کھو رہا تھا۔یہ بات رحمان کی ناراضگی کو بجا طور پر دعوت دینے والی تھی، جس نے اہتمام سے زمین بنائی ،زمین کے اوپر اہتمام سے آسمان بنائے، اور اہتمام سے زمین میں ناپ تول کا نظام قائم کیا۔(سورہ رحمان تا آیت ۱۲)۔ زمین میں میزان کا تعارف رب کریم کی بڑی عطا ہے کہ اس کے بغیر انسانی زندگی کا سفر ناممکن تھا۔عقلاء کا اتفاق ہے کہ زندگی کا قیام مال سے ہے، اور عمران کی اساس میزان ہے۔مال کے ساتھ زیادتی زندگی کے ساتھ زیادتی ہے۔ اور میزان کو نقصان پہونچتا ہے تو عمران متاثر ہوتا ہے۔
معاشی نظام کی اصلاح کی معتبر تاریخ میں پہلا نام شعیب علیہ السلام کا آتا ہے، قرآن مجید میں اس واقعہ کو ایک سے زائد بار اور قدرے تفصیل سے بیان کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکمت قرآنی کی جستجو میں رہنے والوں کے لئے اس میں غور و فکر کے زبردست امکانات موجود ہیں، معاشی نظام کی اصلاح کا بیڑا اٹھانے والوں کے لئے مناسب ہے کہ وہ اس اولین نظیر کو اپنی کوششوں کا سنگ بنیاد قرار دیں۔
٭٭٭