صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
فرات آنکھوں میں
حیدر قریشی
مجموعے ’’سلگتے خواب‘‘ کی غزلیں
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
عجیب کرب و بلا کی ہے رات آنکھوں میں
سسکتی پیاس لبوں پر فرات آنکھوں میں
پھر اس کو دامنِ دِل میں کہاں کہاں رکھیں
سمیٹ سکتے ہیں جو کائنات آنکھوں میں
تمہیں تو گردشِ دوراں نے روند ڈالا ہے
رہی نہ کوئی بھی پہلی سی بات آنکھوں میں
قطار وار ستاروں کی جگمگاہٹ سے
سجا کے لائے ہیں غم کی برات آنکھوں میں
وہ بے وفا کبھی اتنا بھی کب تھا بے گانہ
نہ بے رُخی، نہ کوئی التفات آنکھوں میں
بکھر گئے ہیں مِلن کے تمام دن حیدر
ٹھہر گئی ہے جدائی کی رات آنکھوں میں
٭٭٭
لفظ تیری یاد کے سب بے صدا کر آئے ہیں
سارے منظر آئنوں سے خود مٹا کر آئے ہیں
ایک لمحے میں کئی برسوں کے ناطے توڑ کر
سوچتے ہیں ، اپنے ہاتھوں سے یہ کیا کر آئے ہیں
راستے تو کھو چکے تھے اپنی ہر پہچان تک
ہم جنازے منزلوں کے خود اُٹھا کر آئے ہیں
سارے رشتے جھوٹ ہیں ، سارے تعلق پُر فریب
پھر بھی سب قائم رہیں یہ بد دعا کر ائے ہیں
ہر چھلکتے اشک میں تصویر جھلکے گی تِری
نقش پانی پر تِرا اَن مِٹ بنا کر آئے ہیں
موت سے پہلے جہاں میں چند سانسوں کا عذاب
زندگی! جو قرض تیرا تھا ادا کر آئے ہیں
سارے شکوے بھول کر آؤ ملیں حیدر اُنھیں
وہ گئے لمحوں کو پھر واپس بُلا کر آئے ہیں
٭٭٭