صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
فلسفہ، تصوّف، فطرت اور ادب
ڈاکٹر شیخ عقیل احمد
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقبال اور کالی داس کی شاعری میں مناظرِ فطرت
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اﷲآسمان سے پانی برساتا ہے اور اس کے ذریعے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور اسی طرح انسانوں، جانوروں اور مویسیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں۔ حقیقت یہ کہ اﷲ کے بندوں میں صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں ‘‘۔
(قرآن شریف کے سورہ فاطرِ ٧٢،٥٢،٥٣)
قرآن شریف میں مطالعہ کائنات سے متعلق ۷۵۶ آیتیں ہیں جو اہلِ علم کو دعوتِ فکر دیتی ہیں۔ موجوداتِ کائنات میں پائی جانے والی خوبیوں کا جوہر جو ناظرین میں لذت اور سرور کی خاص کیفیت پیدا کرتا ہے،دراصل حسن کہلاتا ہے اور حسن کے مظاہر کو قبول کرنے کے رجحانات انسانوں میں عموماً اور تخلیق کاروں میں خصوصاً پیدائشی طور پر پائے جاتے ہیں۔ حسن کے مظاہر کو قبول کرنے کے بعد ہی تخلیق کار اشیاء کے مظہری پہلوؤں میں ایک طرح کی حقیقت سمو دینے کا کام کرتا ہے جسے فن کہا جاتا ہے۔موسیقی، نغمہ و آہنگ، رنگ آمیزی یا تصویر کشی وغیرہ کچھ ایسے فنون ہیں جو ہماری پیشہ ورانہ اور کاروباری امور اور سیاسی و اقتصادی زندگی کے فرائض کو پورا کرنے میں ہونے والی محنت اور تھکن کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور ہماری پریشان و مضطرب زندگی کو ایک طرح کاسکون بخشتے ہیں۔ اسی لئے عظیم شاعر یا فن کار کچھ ایسی تخلیقات کو جنم دیتے ہیں جو خود ان کی حیات کی بقا کے لئے اتنی ضروری نہیں ہوا کرتیں لیکن پھر بھی ایسا کرتے ہوئے انہیں مسرت ضرور ہوتی ہے۔اسی لئے ایک تخلیق کار اپنی فطری ذہانت کے سہارے ایک قسم کی شاہانہ فیاضیوں کا برملا اظہار کرتا رہتا ہے۔ان تخلیق کاروں میں سنسکرت کے مہا کوی کالی داس اور اردو کے عظیم شاعر علّامہ اقبال خاص اہمیت کے حامل ہیں جنہوں نے فطرت کا مطالعہ کیا ہے اور اس کے حسین مناظر کی ایسی تصویر کشی کی ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی ہے۔ان شعرا کی شاعری میں مناظر فطرت کی تصویر کشی کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کائنات کیا ہے؟فطرت کسے کہتے ہیں ؟کیا فطرتِ کائنات واقعی بے حد حسین ہے؟یا صرف ایک بد صورت مادہ ہے؟فطرتِ کائنات اگر حسین ہے تو پھر حسن کیا ہے؟ان تمام سوالوں کے جواب فلسفیوں اور صوفیوں نے دیا ہے۔ مطالعہ کائنات فلسفیوں اور صوفیوں کا اہم موضوع رہا ہے۔اس کے متعلق متعدد فلسفیوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔مثلاً لائیبنیز کے فلسفہ مونادیت کے مطابق کائنات موناد وں کا ایک بڑا مجموعہ ہے۔جو نہایت ہی سادہ، ناقابلِ تقسیم اور غیر فانی ہے۔(واضح ہو کہ موناد ایک طرح کے مراکز قوت ہیں جن میں سے ہر وقت توانائی پھوٹتی رہتی ہے۔مونادوں کو روحیتی ذرّات(Spiritual Atoms) بھی کہا جاتا ہے۔لائبنیزکا یہ خیال کہ کائنات مونادوں کا مجموعہ ہے صحیح معلوم ہوتا ہے کیوں کہ اس نے مونادوں کو روحیتی ذرّات یعنی Spiritual Atoms کہا ہے جو قوت کے مراکز ہیں اور جن سے توانائی نکلتی رہتی۔جدید سائنسی تھیوریزTheories) ( نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ مادے کا سب سے چھوٹا ذرّہ جسے تقسیم نہیں کیا جا سکے Atom کہلاتا ہے جس کے اندر بے شمار توانائی ہوتی ہےAtom کے اندر پائے جانے والے Electron,Proton and Nitron توانائی کے سرچشمے ہیں۔ لیکن لائبنیز کا یہ کہنا کہ کائنات نہایت ساد ہ ہے قابلِ قبول نہیں ہے کیوں کہ موناد اگر مراکز توانائی ہے تو آفتاب کی ست رنگی روشنی، پہاڑ کی اونچی چوٹیوں سے بہتے ہوئے خوبصورت جھرنے کیا توانائی کے سرچشمے نہیں ہیں ؟ اگر ہاں تو پھر کائنات سادہ کہا ں ہے۔
برکلے نے بھی فطرتِ کائنات کے متعلق اپنا جو نظر یہ پیش کیا ہے وہ درست معلوم ہوتا ہے۔وہ خارجی عالم کے وجود کو تسلیم کرتا ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ تجربہ ہمیں اشیا کی صفات کا علم فراہم کرتا ہے اور صفات صرف ہمارے نفس یا ذہن کے تصورات ہیں۔ اس لئے فطرت کے متعلق وہ کہتا ہے کہ فطرت دراصل تصورات اور حسیات کا ایک نظام ہے جسے خدا کچھ خاص اصولوں کے تحت محدود اذہان میں پیدا کر دیتا ہے۔
اقتباس
٭٭٭