صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


فیض۔۔ کچھ مطالعے

مدیر: ڈاکٹر رشید امجد
جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

فیض: ایک انسان دوست شاعر۔ڈاکٹر خالد اقبال یاسر اقتباس

    انسان دوستی اس ذہنی رویے کا نام ہے جو انسان اور اس کی خصوصیات، معاملات، دنیاوی خواہشات اور فلاح کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ ۱ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ کوئی شاعر تو ہو انسان دوست نہ ہو۔ البتہ انسان دوستی کی سطحیں اور زاویۂ نظر مختلف ہوسکتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی مسلک انسان دشمن نہیں ہوسکتا بایں ہمہ فلسفیانہ سطح پرتو انسان پسندی خود مذہب کے درجے تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ فکری تحریک کے اعتبار سے مسلکِ انسانیت یعنیHumanism  وہ ’’ نظام یا فکری عمل کا مسلک ‘‘ ہے ’’ جس میں انسانی اور دنیاوی مفادات حاوی ہوتے ہیں۔ ‘‘ ۲ یہی وجہ ہے کہ humanist کو انسان پرست یا پرستارِ انسانیت کہا گیا۔ اسی اصطلاح کا ایک مترادفHumanitarianism  بھی ہے جسے علم الاخلاق کی رو سے نظریۂ انسانیت کہنا چاہیے۔ یہ علم و ادب کا ایک ایسا اصول ہے جس کے مطابق ’’ انسان کی ذات کائنات کا مرکز ہے۔ ‘‘ اس نظریے کا ’’ پیرو انسانی فلاح و بہبود کی کوشش کو ذریعۂ نجات سمجھتا ہے۔ ‘‘ ۳ بعض مفکروں کے نزدیک انسانیت کے نظریے میں مذہبی تفریق سے بالا تر ہونا بھی شامل ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں ’’ انسان کا اصل فریضہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے۔ ‘‘ ۴  فیض احمد فیض کی انسان دوستی بھی کچھ ایسی ہی ہے جو انھوں نے شعوری طور پر اختیار کی ہے:’’ حیات اِنسانی کی اجتماعی جدّوجہد کا ادراک اور اِس جدوجہد میں حسبِ توفیق شرکت زندگی کا تقاضا ہی نہیں فن کا بھی تقاضا ہے۔ ‘‘ ۵ اور فیض کی شاعری کے مطالعے سے واضح ہے کہ انہوں نے واقعی انسانی فلاح کو اپنے فن کا تقاضا سمجھا اور اسے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ایک فرض کی طرح نبھایا     ؎

بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے

فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم

( طوق و دار کا موسم / دستِ صبا/نسخہ ہائے وفا، ص۔ ۱۲۸  )

    اگرچہ فیض کی ابتدائی شاعری ( نقش فریادی کے صفحہ ۶۰تک ) مجرد قسم کی عاشقی، عیش و عشرت کی خواہش، محبوب کے وصل کے لیے بے قراری اور اپنی زندگی کی زر نگاری سے آگے نہیں نکلی تاہم اس میں بھی خدا ترسی، حساسیت اور دردمندی جھلکتی ہے جو بے دست و پا انسان اور انسانیت کی عکاسی کے لیے زندگی کو کسی مفلس کی ایسی قبا سے تشبیہہ دینے کا، جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے ہوں ، بالآخر سبب بن جاتی ہے۔ ہیئتی اور اسلوبیاتی تجربات کے ذریعے ایک نئی فکر اور انقلاب کی خاطر راستے ہموار کرنے کی کوشش سے پہلے بھی ان کی  ع  جاں کا ہر رشتہ وقفِ سوز و گداز (نسخہ ہائے وفا، ص۔ ۱۷ ) تھا اور  ع  دکھتا ہوا دل لے کر مایوس سا ہو جانا ( نسخہ ہائے وفا، ص ۱۔ ۱۹  ) ان کا فطری اور عمومی رویّہ تھا۔ فیض نے وارداتِ قلب کو ابتلائے ذات میں ڈھالا اور پھر اجتماعی زندگی کے نشیب و فراز، سماجی شعور، آرزوؤں ، امنگوں ، حسرتوں ، امیدوں اور رویوں کی ترجمانی کا فریضہ ادا کیا   ؎

آؤ کہ آج ختم ہوئی داستانِ عشق

اب ختمِ عاشقی کے فسانے سنائیں ہم

( مرگِ سوز محبت، نسخہ ہائے وفا، ص۔ ۷۸ )

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔