صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


فیض کی اقبال فہمی

ڈاکٹر خالد ندیم

اؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

اقتباس

فیض کے آغازِ شعور میں علامہ اقبال کی شہرت کا دائرہ ہندوستان کی سرحدوں کو عبور کر کے مشرق و مغرب تک پھیل چکا تھا، ایسے میں فیض کا اقبال سے متاثر ہونا بالکل فطری تھا۔ ۱  یہ وہ دور تھا، جب اختر شیرانی و حفیظ جالندھری کی نغمگی، حسرت موہانی کا تغزل اور جوش کی انقلابی لَے نوجوان نسل کو کسی نہ کسی طور متاثر کر رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ میر اجی اور راشد کی سرگوشیاں بھی محسوس کی جا رہی تھیں۔ فیض ان سب آوازوں کو بغور سن رہے تھے، لیکن ان کی پہلی شعری توجہ کا مرکز اقبال بنے، چنانچہ اپنے زمانۂ طالب علمی کے دَوران (۱۹۳۱ء میں ) گورنمنٹ کالج، لاہور میں منعقدہ ایک مشاعرے میں ’اقبال‘ کے عنوان پر انعامی مقابلے کے لیے فیض نے بھی ایک نظم لکھ کر اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ یہ نظم بعد ازاں گورنمنٹ کالج کے ادبی مجلے راوی میں ’اقبال‘ کے عنوان سے شائع ہوئی:


زمانہ تھا کہ ہر فرد انتظارِ موت کرتا تھا

عمل کی آرزو باقی نہ تھی بازوئے انساں میں

بساطِ دہر پر گویا سکوتِ مرگ طاری تھا

صدائے نوحہ خواں تک بھی نہ تھی اس بزمِ ویراں میں

رگِ مشرق میں خونِ زندگی تھم تھم کے چلتا تھا

خزاں کا رنگ تھا گلزارِ ملت کی بہاروں میں

فضا کی گود میں چپ تھے ستیز انگیز ہنگامے

شہیدوں کی صدائیں سو رہی تھیں کار زاروں میں

سنی واماندۂ منزل نے آوازِ درا آخر

تِرے نغموں نے آخر توڑ ڈالا سحرِ خاموشی

میِ غفلت کے ماتے خوابِ دیرینہ سے جاگ اٹھے

خود آگاہی سے بدلی قلب و جاں کی خودفراموشی

عروقِ مردۂ مشرق میں خونِ زندگی دَوڑا

فسردہ مشتِ خاکستر سے پھر لاکھوں شرر نکلے

زمیں سے نوریاں تک آسماں پرواز کرتے تھے

یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔