صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


فیصلہ

طویل کہانی/ ناولٹ

عالم آرا

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

اقتباس

    گھر میں شادی کا ہنگامہ تھا۔ ہر کوئی مصروف تھا۔ بھائی  اور بھابھی کی خوشی کا ٹھکا نہ نہ تھا۔انکے ہر انداز سے ان کی خوشی اور طمانیّت صاف ظاہر ہو رہی  تھی۔خاندان بہت بڑا تھا  اس لۓ کچھ لوگ پہلے سے ہی آگۓ تھے  جن کی وجہ سے رونق زیادہ تھی۔ رد ا بیوٹی پا رلر جا چکی تھی۔ کھانے پر پابندی کی وجہ سے لال میں صرف کولڈ ڈرنکس تھے، لیکن قریبی لو گوں کے لۓ گھر پر کھانے کا انتظام تھا جس کی وجہ سے کا فی کام  کرنے والے ٹیبلز   وغیرہ لگا نے میں مصروف تھے۔مجھے کافی تھکن ہو رہی تھی اس لۓ میں نے سوچا کہ تھوڑی دیر جا کر لیٹ جاؤں ،تا کہ شام کی تقریب کے لۓ تھوڑی چستی آ جاۓ۔کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ آجکل رخصتی  وغیرہ میں آدھی رات ہو جاتی ہے۔

میرے کمرے میں  بھی مہمانوں  کا سامان پھیلا  ہوا تھا۔لیکن اس وقت کمرے میں  کو ئی نہیں تھا شاید سب اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف تھے میں نے شکر  کیا اور موقعہ غنیمت جان  کر اپنے بستر پر لیٹ گئی۔

مجھے دو ماہ پہلے کی بات یاد آ گئی ،جب بھتیجی نے یہ کہہ کر شادی سے صاف انکار کر دیا  تھا کہ وہ اپنا خیال خود رکھ  سکتی ہے اسے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ کسی کی غلامی میں جاۓ ،وہ  اتنا پڑھ چکی ہے اور اچّھی جاب  بھی ہے وہ اپنا گزارہ خود کر لے گی اور بحث کے دوران جب اس نے میری مثال دی تو بھائی اور بھا بی چیخ  پڑے وہ ان کی اکلو تی اولا د تھی  ،دونوں ماں باپ سخت طیش میں  آگۓ اور گھر کی فضا انتہا  ئی نا خوشگوار ہو گئی جب میں کالج سے پڑھا کر تھکی ہاری واپس آئی تو مجھے ان کے عتاب کا شکار ہونا پڑا اور بھائی  نے یہ کہہ کر کہ تم ہی اسے سمجھا  سکتی ہو ساری ذمہ داری مجھ پر ڈ  ال دی۔

بھابی کھنچی کھنچی  سی تھیں ظاہر ہے ان کی بیٹی کا معاملہ تھا  ،میں نے وعدہ کیا کہ میں رد ا کو سمجھاؤں گی اور یہ بھی کہ وہ ضرور شادی کے لۓ تیّا ر ہو جائے گی ،میں نے ردا سے بات کی تو اس نے انتہا ئی نخوّت سے کہا ' آپ لے بھی تو زندگی بغیر شادی گزاری ہے اور میرا خیال ہے کہ کچھ بری نہیں گزری آپ ہمیشہ خوش و خرّم اور اپنے فیصلوں کی مالک رہیں۔جیسا آپ کا دل چاہا آپ نے کیا تو مجھے کیوں میری مرضی کے خلا ف اس فیصلے میں باندھ رہے ہیں۔میں اپنی زند گی جینا چاہتی ہوں ،میں نہیں چاہتی کہ کوئی بلا وجہ مجھ پر حکمرانی کرے، بس مجھے نہیں کرنی شادی۔

میں خاموشی سے اس کی بات  سنتی رہی تھی اور پھر میں  نے اس سے دوسرے دن بات کرنے کا فیصلہ  کیا اور سوچا کہ کل میں چھٹی لے لوں گی تا کہ میں اس کے واپس آتے  ہی اس سے بات کر سکوں ، اور میں رات بھر سکون سے نہ سو سکی سوچتی رہی کہ ا سے کیسے سمجھاؤں طرح طرح کے تانے بانے بنتی رہی اور پھر یہ سوچ کر سکون سے ہو گئی کہ میں اسے اپنے تمام حالات اور جز بات بتاؤں گی اور پھر اس پر چھو ڑ دوں گی جو اس کا فیصلہ ہو
۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول