صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


قولِ فیصل

کلکتہ کی عدالت میں مولانا ابُو الکلام آزاد کا تحریری بیان

مولانا ابوالکلام آزاد

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                  ٹیکسٹ فائل

دیباچہ

    بہ بد مستی سزدگر متّہم سازدمرا ساقی

    ہنوز از بایہ پارینہ ام پیمانہ بودارد! ؂1


    بنگال کے ایک مشہور ہندو جرنلسٹ اور پولیٹیکل رہنما نے وائداد کے انگریزی ایڈیشن کے لیے جو تحریر بطور دیباچہ کے لکھی ہے، اسی کا ترجمہ یہاں بطور دیباچہ کے درج کیا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

    مولانا ابو الکلام آزاد کی گرفتاری اور مقدمہ کی یہ مختصر روئداد ہے، جو ملک کے اصرار و طلب سے سرسری طور پر مرتب کر کے شائع کی جاتی ہے۔ مقدمہ کی روئداد زیادہ تر مقامی اخبارات کی رپورٹوں اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے تاروں سے نقل کی گئی ہے۔ بہت سی تفصیلات بخوف طوالت نظر انداز کر دی گئیں۔ اثناء مقدمہ میں عدالت سے باہر جو واقعات ظہور میں آئے اور جن میں سے اکثر ایسے ہیں جو مولانا کی گرفتاری سے بہت قریبی تعلق رکھتے تھے، ان کی بھی کچھ ذکر نہیں کیا گیا، کیونکہ روئداد مقدمہ کے موضوع سے خارج تھے۔

    اس مجموعہ میں سب سے پہلے وہ "پیغام" درج ہے جو گرفتاری سے دو دن پہلے مولانا نے لکھ کر اپنے کاغذات میں رکھ دیا تھا اور گرفتاری کے بعد شائع ہوا۔ اس کے بعد گرفتاری کی مختصر کیفیت درج ہے۔ پھر تاریخ اور تمام پیشیوں کی روئداد دی گئی ہے۔ اس کے بعد مولانا کا بیان ہے، جو انہوں نے عدالت کے لیے لکھا۔ فی الحقیقت اصل مقصود اس رسالہ کی ترتیب سے اسی کی اشاعت ہے۔ آخر میں بطور ضمیمہ کے مولانا کا وہ مضمون بھی شامل کر دیا گیا ہے، جو کلکتہ    پہنچ کر انہوں نے پیغام میں شائع کیا تھا اور جس میں گورنمنٹ کے تازہ جبر و تشدد کے جواب میں ایک نئی مدافعانہ حرکت کی اپیل کی گئی تھی۔ ملک نے اس اپیل کا جس جوش و مستعدی کے ساتھ جواب دیا اور خصوصاً بنگال میں جیسی یادگار اور غیر مسخر دفاعی پیش قدمی شروع ہوئی، وہ موجودہ تحریک کی تاریخ کا سب سے زیادہ شاندار اور پر فخر کارنامہ ہے۔ اگر بد قسمتی سے اس فتح مندی کے تمام ثمرات ضائع نہ کر دیئے جاتے تو فی الحقیقت ملک نے میدان ل پہلا مرحلہ جیت لیا تھا ور قریب تھا ایک نیا کامیاب در شروع ہو جائے، چونکہ مولانا کی گرفتاری ہی اس نئی حرکت کا سلسلہ شروع ہوا، اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ یہ مضمون روئداد میں شامل کر دیا جائے۔ پہلی دسمبر ١٩٢١ سے ١١ فروری تک ملک نے جو فتح مند دفاع کیا ہے وہ گویا اسی دعوت کا عملی جواب تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ؂1 حضرت مولانا نے اپنے بیان کا عنوان اسی شعر کو رکھا ہے جیسا کہ ان کے مسوّدے میں ہے لیکن چونکہ بیان اس لیے لکھا گیا تھا کہ اس کا انگریزی ترجمہ عدالت میں داخل کیا جائے، اس لیے ترجمہ کے وقت نکال دیا گیا۔ 

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                  ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول