صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
فحاشی اور ادب
’اثبات‘، ممبئی، شمارہ ۱۲۔ ۱۳ سے انتخاب
مدیر: اشعر نجمی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
انما الاعمال بالنیات
جب میں نے کافی غور و خوض کے بعد "اثبات" کے زیر نظر شمارے کے لیے "عریاں نگاری اور فحش نگاری" جیسے نزاعی لیکن نہایت ہی اہم ادبی مسئلے کو بطور موضوع (تھیم) منتخب کیا تو کچھ لوگوں سے مشورہ کر لینا مناسب سمجھا۔ چنانچہ اس غرض سے میں نے ہند و پاک کے کئی سروقدادبی شخصیتوں سے رابطہ کیا، سبھی نے توقع سے زیادہ ہمت بندھائی۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ موضوع لائبریری کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر انھوں نے مجھے خبردار بھی کیا کہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اسے دوسرا رنگ دینے کی کوشش کریں یعنی مجھ پر شہرت طلبی کا الزام عائد کریں۔ ان کی یہ بات میرے حلق سے نیچے نہیں اتری، کیوں کہ اول تو مجھے اپنے پرچے کے سنجیدہ اور با ذوق قارئین کی ذہنی لیاقت اور ان کی بالغ نظری پر مکمل اعتماد ہے اور دوم یہ کہ بالفرض محال اس الزام کی تپش میں جھلسنا میرا مقدر ہے بھی تو کیا فرق پڑتا ہے، کیوں کہ کسی نہ کسی کو اس آگ میں آج نہیں تو کل اترنا ہی ہو گا ورنہ اقبال کے اس تصور کی تجسیم ممکن نہیں جس کے تحت ابراہیم ؑ کی سی خود اعتمادی کے سامنے دہکتے ہوئے شعلے بھی "انداز گلستاں " پیدا کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ خود کو اس اعزاز سے محروم رکھنے کا کوئی جواز میرے پاس نہیں تھا۔ البتہ میں نے جہاں دیدہ اور دور اندیش فاروقی صاحب کے مشورے کو تسلیم کرتے ہوئے اس ادبی مسئلے پر نظری تنقید کو مقدم رکھا اور نمونۂ کلام کا حصہ "مصلحتاً" مختصر کر دیا۔ اس مختصر حصے میں بھی میں نے "فحش نگاری"پر"عریاں نگاری" کو ہی ترجیح دی۔ یہ ضرور ہے کہ ہمارے ہاں اکثر معیاری فحش کلام سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے چلے آئے ہیں جن کا حصول اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس مشکل مرحلے کو بھی میری مہم جو طبیعت نے سر کرنے کی کوشش کی تھی جس میں کافی حد تک کامیابی بھی ملی۔ استاد رفیع احمد خاں، محشر عنایتی، نشتر ترکی، مائل لکھنوی وغیرہ جیسے قادر الکلام فحش نگاروں کے کلام میرے ہاتھ لگے جن کی خوبیاں اور جدتیں بیان سے باہر ہیں۔ حمد، نعت، منقبت، سلام، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی، غزل، نظم ؛ کوئی صنف ایسی نہیں تھی جسے انھوں نے اپنے مخصوص رنگ میں برتا نہ ہو اور قلم نہ توڑ دیا ہو لیکن بقول جوش، "افسوس کہ میری قوم میں ابھی تک مردوا پن پیدا نہیں ہوا، ورنہ ان کے فحش اشعار نقل کر کے اپنے دعوے کو مدلل کر دیتا۔ "
اکثر و بیشتر عریانی اور فحاشی کا استعمال مترادفات کے طور پر کیا جاتا ہے، حالاں کہ ان دونوں میں کافی فرق ہے۔ عریانی کا تعلق جمالیات سے ہے جب کہ فحاشی سماجیات سے متعلق ہے۔ یہ ایک ایسا عمیق اور اتنا وسیع موضوع ہے جس کی جڑیں کئی معاشرتی علوم سے پیوست ہیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ عریانی یا فحاشی کے تصورات اضافی ہیں۔ مختلف ادوار، مختلف معاشرے بلکہ ایک ہی معاشرے کے مختلف طبقوں میں یہ تصورات مختلف شکلوں میں جلوہ گر ہیں۔ مثلاً امریکا میں پائی جانے والی عریانیت کو ایک طبقہ انتہاپسند ی سے تعبیر کرتا ہے لیکن خود امریکیوں کو اٹلی کے ٹیلی ویژن فحاشی اور عریانیت کے علم بردار نظر آتے ہیں جہاں برہنگی کے ساتھ جنسی اختلاط کے مناظر بھی بلا جھجک پیش کر دیے جاتے ہیں۔ فرانس میں آدھی رات گذرنے کے بعد وہاں کے ٹیلی ویژن اپنے ناظرین کو اشارہ کر دیتے ہیں کہ اب بچوں کو سلادیا جائے تاکہ عریانی اور فحاشی سے بھرپور پروگرام نشر کیے جا سکیں۔ میکسیکو میں عریاں تصاویر کی اشاعت پر یہ پابندی عائد ہے کہ ایک صفحے پر صرف ایک چھاتی دکھائی جائے، جب کہ جاپان میں صرف موئے زہار کی نمائش ممنوع ہے۔
نظام اخلاق کوئی جامد شے نہیں، جسے ایک دفعہ وضع کر لیا جائے اور پھر اسی کسوٹی پر ہر زمانے اور ہر معاشرت کو پرکھا جائے۔ زمانے کے ساتھ اخلاق کے پیمانے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اور اخلاق کا تعلق معاشی اور سماجی اقدار کے ساتھ بڑا گہرا ہوتا ہے، لہٰذا اقتصادی اور سماجی تعلقات کی نوعیت کے مطابق اخلاقی اقدار بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ مثلاً بنگلہ دیش کے چند قبیلے اور افریقہ کے تاریک جنگلوں میں بسنے والے حبشی برہنہ زندگی گذارتے ہیں اور اس میں وہ کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے کیوں کہ یہ عریانی ان کی تہذیب کا جز ہے۔ آپ خواہ کچھ بھی کہتے رہیں لیکن وہ اسے فحاشی نہیں سمجھتے۔ ان لاکھوں بوڑھوں اور جواں مردوں کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے جو ایک آدھ لنگوٹ کے سوا ہر لباس سے بے نیاز رہتے ہیں۔ کیا یہ دلچسپ بات نہیں کہ مغرب میں عورت عریاں ہے اور مشرق میں مرد۔
جہاں تک اردو شعر و ادب میں شہوانی جذبات اور جنسی واردات کے اظہار کا تعلق ہے تو یہ کل تک معمول کا حصہ تھا، چنانچہ آپ میر، غالب، درد، ذوق، انشا، جرأت، رنگین اور داغ سے لے کر نظیر اکبر آبادی تک کے دواوین پڑھ جائیے، آپ کو سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے اشعار ملیں گے جو آج کے نقطۂ نظر سے بہ آسانی فحش اور مخرب الاخلاق قرار دیے جا سکتے ہیں جب کہ صرف دو ڈھائی سو سال قبل تک ان اشعار کو مبتذل تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ ہمارا اخلاقی معیار انگریزوں کی آمد کے بعد کس قدر بدل چکا ہے، اس کا اندازہ اس امر سے کیجیے کہ جب منشی نول کشور نے نظیر اکبر آبادی کے دیوان کا پہلا ایڈیشن شائع کیا تو اس میں جنسی واردات سے متعلق تمام اشعار موجود تھے، لیکن دوسرے ایڈیشن میں ان تمام اشعار اور نظموں سے فحش الفاظ حذف کر کے خالی جگہوں میں نکتے ڈال دیے گئے، جو ناشر کے خیال میں قانون کی گرفت سے بچنے کا آسان طریقہ تھا۔ چنانچہ بقول فاروقی، "ہم لوگ تو نظیر اکبر آبادی کا کلیات پڑھتے ہی نہیں۔ ہم نقطے پڑھتے ہیں کہ اس میں جگہ جگہ نقطے لگے ہوئے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کے لیے نظیر نے شعر کہے تھے، انھوں نے پہلے تو کبھی اس کو پڑھا ہو گا یا سنا ہو گا۔ " یہاں برسبیل تذکرہ مجھے اس پر بھی حیرت اور تاسف کا اظہار کر لینے دیجیے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی "تاریخ ادب اردو" میں یہی کیا ہے یعنی قدما کے ایسے نمونۂ کلام پر انھوں نے نقطے لگا دیے ہیں جو ان کی نظر میں عریاں اور فحش ہیں۔
اس ضمن میں فورٹ ولیم کالج سے شائع ہونے والی مشہور داستان "توتا کہانی" کی مثال بھی دی جا سکتی ہے جس میں بہت سی ایسی کہانیاں شامل ہیں جنھیں آج کے دور میں آسانی سے مخرب الاخلاق کہا جا سکتا ہے۔ شاید اسی خطرے کے پیش نظر ڈاکٹر وحید قریشی نے جب اسے مرتب کر کے شائع کیا تو اس کی بہت سی عبارتیں یا تو بدل دیں یا حذف کر دیں۔ ایک زمانہ تھا کہ بعض بھکاری بنگلہ زبان کے قدیم مصنف بھارت چندر کی ایسی نظمیں گاؤں گاؤں گشت لگا کر گایا کرتے تھے جن میں رادھا اور کرشن کے ناجائز تعلقات کا نہایت رومانی بلکہ فحش انداز میں ذکر ہوتا تھا۔ ایسے مغنی بھکاریوں کو "پانچالک" یا "کویال" کہا جاتا تھا۔
ہندوستان کے شاعروں نے فارسی غزل کی تقلید کرتے ہوئے اردو میں غزل گوئی کی ابتدا کی۔ چوں کہ ایرانی معاشرے میں مرد اور عورت کے فطری رشتے پر سخت پابندیاں عائد تھیں، لہٰذا وہاں کے شاعروں نے امرد پرستی میں جنسی جذبے کی تسکین کا سامان کیا۔ ایران میں امردپرستی کے سراغ کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یونان کے سفر پر نکلنا پڑتا ہے جہاں نوجوان اور حسین و خوب رو لڑکوں سے جنسی محبت ایک مستحسن فعل تصور کیا جاتا تھا اور وہاں بھی اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ عورتوں اور مردوں کے اختلاط کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔
٭٭٭