صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
فاعلات
محمد یعقوب آسی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
اصنافِ شعر
اردو میں رائج اصنافِ شعر کو دو حوالوں سے دیکھا جا سکتا ہے : ہیئت کے اعتبار سے اور نفسِ مضمون کے اعتبار سے۔ ہیئت کے حوالے سے اب تک متعارف ہونے والی اصناف میں گیت، دوہا، کافی، ماہیا، ثلاثی، ہائیکو، رباعی، مخمس، مسدس، ترکیب بند، قطعہ بند، مسبع، معریٰ نظم، آزاد نظم، غنائیہ اور غزل نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ نفسِ مضمون کے حوالے سے ان اصناف میں حمد، نعت، منقبت، قصیدہ، ترانہ، ہجو، شہر آشوب، خمریات، ہزل (یعنی اینٹی غزل)، غزل، سہرا، مرثیہ، مناجات، بہاریہ اور واسوخت جانی پہچانی صورتیں ہیں۔ نام نہاد ’’نثری نظم‘‘ ہمارے نکتۂ نظر سے نظم کی نہیں بلکہ نثر کی ایک صورت ہے اور اس کے لئے بہت مناسب نام ’’نثرِ لطیف‘‘ پہلے سے موجود ہے۔
اس کتاب کا موضوع نفسِ مضمون نہیں ہے اور ہیئت کے اعتبار سے بھی ہم مختلف اصناف کی تفصیل میں جائے بغیر شعر کے اوزان کا مطالعہ کریں گے۔ تاہم موزوں ہو گا کہ نظم کے ہیئتی گروہ میں سے چیدہ چیدہ اصناف پر قدرے تفصیل سے بات ہو جائے۔
غزل: غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ابتداءً قصیدہ کا حصہ تھی۔ قصیدہ عربی کی ایک قدیم اور معروف صنف ہے جس میں شاعر اپنے قبائلی سرداروں اور سورماؤں اور قومی مشاہیر کی زندگی میں ان کی تعریف و توصیف (جس میں خوشامد بھی شامل ہے ) بڑے جاندار لفظوں میں کیا کرتے تھے۔ قصیدہ کے لئے زورِ بیان، با وقار انداز اور اعلیٰ فنی مہارت ضروری ہے۔ قصیدہ کو عام طور پر چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ تشبیب میں شاعر اپنے خیالات کی جولانی دکھاتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو زورِ بیان پر صرف کرتا ہے۔ تشبیب سے اصل مضمون کی طرف رجوع کا نام گریز بھی ہے۔ یہاں پیرایۂ اظہار میں نفاست ہوتی ہے اور گریز کے لئے حسنِ تعلیل سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد مدح ہوتی ہے۔ شاعر اپنے ممدوح کے لئے بلند خیالی کا اظہار کرتا ہے اور اس کی توصیف کرتا ہے۔ آخر میں وہ ممدوح کو دعا دیتا ہے یا اس کے سامنے اپنی طلب پیش کرتا ہے۔ بعض قصائد میں دعا اور طلب ساتھ ساتھ ملتی ہیں۔
تشبیب میں پائے جانے والے زورِ بیان، ندرتِ خیال، موسیقیت، رومانی اور نازک موضوعات اور حسنِ بیان میں خود اتنی جان تھی کہ تشبیب کے اشعار یا ابیات کو قصیدہ سے الگ کر کے بھی پڑھا یا سنا جائے تو ان کا اپنا ایک تاثر بنتا تھا۔ اس خوبی کی بنا پر اس کی ایک آزاد حیثیت ایک الگ صنفِ سخن کے طور پر معروف ہو گئی جسے ’’غزل‘‘ کہا گیا۔ غزل کی تعریف مختلف ادوار میں مختلف انداز میں کی جاتی رہی ہے۔ لفظ ’غزل‘ کے معنی کے لحاظ سے اور اس کے موضوعات کے حوالے سے ’’غزل‘‘ کو جو کچھ کہا جاتا رہا، اس تفصیل کا اجمال کچھ اس طرح ہے :
۱۔ عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی سی باتیں کرنا، جسے ریختی بھی کہا جاتا ہے۔
۲۔ ہرن (غزال) جب زخم خوردہ ہو تو جو آواز وہ شدتِ خوف اور شدتِ درد کے عالم میں نکالتا ہے اسے بھی غزل کہتے ہیں۔ اس حوالے سے درد و الم کے بیان کو غزل کا موضوع کہا جاتا ہے۔
۳۔ محبوب کا شکوہ، اس کے لئے اپنے جذبے اور وارفتگی کا بیان، اس کی بے اعتنائی کا احوال غزل کا محبوب موضوع رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ محبوب حقیقی بھی ہو سکتا ہے، مجازی بھی، خیالی بھی اور بعض شعرا کے ہاں اپنی ذات محبوب کا درجہ رکھتی ہے۔
۴۔ دوستوں اور زمانہ کی شکایت، اپنے ذاتی، اجتماعی یا گروہی رنج و الم کا بیان۔
۵۔ اپنے گرد و پیش کے مسائل کا بیان اور ذاتی تجربات اور مشاہدات کا قصہ، ارادوں کا اظہار اور ان کے ٹوٹنے پر دکھ کی کیفیت۔
۶۔ گل و بلبل، جام و مینا، لب و عارض کا بیان۔ خیال آفرینی، معنی آفرینی اور حسنِ بیان۔
۷۔ بقول پروفیسر رشید احمد صدیقی: ’’ہماری تہذیب غزل میں اور غزل ہماری تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے رنگ و آہنگ، سمت و رفتار اور وزن اور وقار ملا ہے ‘‘۔ فراق گورکھپوری کے بقول ’’اردو غزل کا عاشق اپنے محبوب کو اپنی آنکھوں سے نہیں اپنی تہذیب کی آنکھوں سے دیکھتا ہے ‘‘۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا ہے :
غزل کے روپ میں تہذیب گا رہی ہے ندیمؔ
مرا کمال مرے فن کے اس رچاؤ میں تھا
آج کی غزل کا میدان بہت وسیع ہے۔ دنیا جہان کے موضوعات غزل میں سما گئے ہیں۔ سنجیدگی، متانت اور ماتمی کیفیات کے ساتھ ساتھ طنز اور ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ بھی آج کی غزل میں پائی جاتی ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ تصوف، عقائد اور مابعد الطبیعیاتی مسائل بھی آج کی غزل کا اہم موضوع ہیں۔ موضوعاتِ غزل میں جو کچھ بھی شامل ہو سکے ہونا چاہئے تاہم ایک بنیادی شرط پر کہ کسی صورتِ حال یا واقعے یا فکر کو محض بیان کر دینے کا نام غزل نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ شاعر اپنا احساس اور تجربہ اپنے اندازِ اظہار میں شامل کرے اور قاری کو یہ باور کرا سکے کہ اس نے کس حد تک کسی صورتِ حال کا اثر لیا ہے۔ اگر قاری (یا سامع) بھی شاعر کے تجربے کو محسوس کر سکے تو یہ غزل کی ایک اور خوبی ہو گی۔ غزل کے ہر شعر کا نفسِ مضمون الگ ہو سکتا ہے اور مجموعی طور پر غزل کا ایک تاثر بھی بن سکتا ہے۔ بعض نقاد ریزہ خیالی کو غزل کا حسن قرار دیتے ہیں اور بعض وحدتِ تاثر کو۔
٭٭٭