صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اعتبار کا موسم
محسن بھوپالی
جمع و ترتیب: شیزان اقبال
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
وہ ساتھ لے گیا قول و قرار کا موسم
تمام عمر ہے اب اِنتظار کا موسم
حیات اب بھی کھڑی ہے اُسی دوراہے پر
وہی ہے جبر، وہی اِختیار کا موسم
ابھی تو خُود سے ہی فارغ نہیں ہیں اہلِ جمال
ابھی کہاں دلِ اُمید وار کا موسم
اُسے بھی وعدہ فراموشی زیب دیتی ہے
ہمیں بھی راس نہیں اعتبار کا موسم
جہاں گِرے گا لہُو، پھُول بھی کِھلیں گے وہیں
کِسی کے بس میں نہیں ہے بہار کا موسم
کبھی تو لوٹ کے دِلداریوں کی رُت آئے
سدا بہار ہے مُدت سے دَار کا موسم
ہم اپنے آپ کو محسن بدل کے دیکھیں گے
بدل سکے نہ اگر کُوئے یار کا موسم
٭٭٭
لب اگر یوں سئے نہیں ہوتے
اُس نے دعوے کئے نہیں ہوتے
خُوب ہے، خُوب تر ہے، خُوب ترین
اِس طرح تجزیئے نہیں ہوتے
گر ندامت سے تم کو بچنا تھا
فیصلے خُود کئے نہیں ہوتے
بات بین السّطوُر ہوتی ہے
شعر میں حاشئے نہیں ہوتے
تیرگی سے نہ کیجئے اندازہ
کچھ گھروں میں دیئے نہیں ہوتے
ظرف ہے شرطِ اوّلیں محسن
جام سب کے لیے نہیں ہوتے
٭٭٭٭٭٭٭٭