صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اک کتھا انوکھی
وزیر آغا
طویل نظم
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
اک جنگل تھا
گھنی گھنیری جھاڑیوں والا
بہت پرانا جنگل
جس کے اندر اک کُٹیا میں
اپنے بدن کی چھال میں لپٹا
اپنی کھال کے اندر گم صُم
جانے کب سے
کتنے جگوں سے
پھٹے پرانے چوغے پہنے
وہ اک خستہ بیج کی صورت
بے سُدھ
بے آواز پڑا تھا!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بادل آتے
کڑک گرج کر اُسے بلاتے
بِن برسے ہی پچھم کی جانب مڑ جاتے
ہوا دہکتی آنکھیں
ٹھنڈی پوریں لے کر
اس کے چاروں جانب پھرتی
پر کیا کرتی
گیدڑ، مور، ہرن اور بندر
سب کُٹیا کے باہر ملتے، سبھا جماتے
اس سے کہتے:
’’اب تو اُٹھ جا
آخری جُگ بھی بیت چکا
سورج میں کالک اُگ آئی
چاند کا ہالہ ٹوٹ گیا
دیکھ کہ گھاس جلی جھلسی ہے
ندیوں میں جل سوکھ گیا
جس بھی سنہری بیج سے
یہ برہمانڈ اُگا تھا
واپس شاید اسی کے اندر
اُتر گیا!’‘
٭٭٭
گھنی گھنیری جھاڑیوں والا
بہت پرانا جنگل
جس کے اندر اک کُٹیا میں
اپنے بدن کی چھال میں لپٹا
اپنی کھال کے اندر گم صُم
جانے کب سے
کتنے جگوں سے
پھٹے پرانے چوغے پہنے
وہ اک خستہ بیج کی صورت
بے سُدھ
بے آواز پڑا تھا!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بادل آتے
کڑک گرج کر اُسے بلاتے
بِن برسے ہی پچھم کی جانب مڑ جاتے
ہوا دہکتی آنکھیں
ٹھنڈی پوریں لے کر
اس کے چاروں جانب پھرتی
پر کیا کرتی
گیدڑ، مور، ہرن اور بندر
سب کُٹیا کے باہر ملتے، سبھا جماتے
اس سے کہتے:
’’اب تو اُٹھ جا
آخری جُگ بھی بیت چکا
سورج میں کالک اُگ آئی
چاند کا ہالہ ٹوٹ گیا
دیکھ کہ گھاس جلی جھلسی ہے
ندیوں میں جل سوکھ گیا
جس بھی سنہری بیج سے
یہ برہمانڈ اُگا تھا
واپس شاید اسی کے اندر
اُتر گیا!’‘
٭٭٭