صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ایک تو ہی نہیں
ڈاکٹر سید صغیر صفیؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
ہرے ہیں سب زخم میرے دل کے کوئی ابھی تک بھرا نہیں ہے
عزیز تھا جاں سے بڑھ کے لیکن وہ شخص مجھ کو ملا نہیں ہے
قصور میرا کہ میں نے تیری محبتوں کو امر تھا سمجھا
مجھے شکایت نہیں کسی سے مجھے کسی سے گلہ نہیں ہے
تمام چارہ گروں نے آخر کہا دعا کا ہے دوستوں کو
میں مبتلا ہوں یہ کیسے دکھ میں کہ جس کی کوئی دوا نہیں ہے
علاج کوئی نہیں نظر میں، جو کارگر ہو کسی طرح سے
میں مر مٹا جس کے واسطے ہوں وہ شخص پھر بھی ملا نہیں ہے
یہ چاہتیں کب تھیں اختیاری یہ خواہشیں کب تھیں خود ارادی
مجھے سزا اس پہ مل رہی ہے کہ جس میں میری خطا نہیں ہے
محبتوں کا بھرم تو ایسے محال رکھنا صفیؔ ہوا ہے
جلا تو ہوں میں کسی کی خاطر دھواں کہیں سے اٹھا نہیں ہے
٭٭٭
مشکلاتِ سفر اتنی بھاری نہیں
اس لیے لب پہ اب آہ و زاری نہیں
میری نظروں کا سب آئینہ بن گئیں
عشق میں تو کوئی راز داری نہیں
بھول جاؤں نہ میں ایک دن تم کو بھی
وائے قسمت کوئی زخم کاری نہیں
بے وفائی، محبت، جدائی، یہ دکھ
ان بلاؤں کا کیوں خوف طاری نہیں
پستیوں میں ابھی تک گرے ہی نہیں
جن کو ٹھوکر زمانے نے ماری نہیں
زندگی بوجھ ہو جب کسی شخص پر
زہر دینا بھی کیا غم گساری نہیں
٭٭٭