صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ا کی موت پر ایک کہانی
رشید امجد
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
آج میں نے اپنی موت کی دستاویز پر دستخط کئے ہیں۔
وہ کئی دنوں سے یہ چاہ رہی تھی کہ میں اس پر دستخط کر دوں ، لیکن میں کسی نہ کسی طرح ٹال جاتا تھا۔ آج میں نے سوچا اگر میرے دستخط کر دینے سے اسے سکون ملتا ہے تو مجھے انکار نہیں کرنا چاہئے، سو میں نے اس پر دستخط کر دئیے اور اب میرے ہر اٹھتے ہوئے قدم کے ساتھ فاصلے کا گولا کھلتا چلا جا رہا ہے۔ ویران سڑکوں پر مسلسل چلتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں ، آخر وہ مجھ سے اس دستاویز پر کیوں دستخط کرانا چاہتی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس نے مجھ سے کبھی نہیں کہا کہ میں اس پر دستخط کر دوں ، لیکن جب میں اس سے ملنے جاتا تھا، یہ دستاویز اس کی میز پر پڑی ہوتی تھی۔ میں نے بہت دن پہلے اس کا مضمون پڑھ لیا تھا، لیکن میں اسے دانستہ نظر کرتا رہا اور اس خیال میں رہا کہ میں ایک دن اسے ان تصویروں سے باہر نکال لاؤں گا جن میں اس نے خود کو قید کر رکھا ہے۔ لیکن اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس نے تو مجھے بھی تصویر بنا کر اپنی دیوار پر لٹکا دیا ہے، ایک ایسی تصویر جسے وہ اب بھول بھی چکی ہو گی، لیکن میں زندگی بھر اس کی دیوار پر اس انتظار میں لٹکتا رہوں گا کہ کسی دن وہ مجھے نیچے اتارے گی۔
میرے اندر گھٹن بڑھتی چلی جار ہی ہے۔ میں سگریٹ کے دھوئیں کے ذریعہ اسے اگلنے کی کوشش کرتا ہوں۔ دیواروں پر لگی ہوئی ساری تصویریں ایک جانب سے اکھڑ گئی ہیں۔ میں اپنے اندر انگلیاں ڈبو کر سفید کینوس پر اپنی خوں آلود انگلیوں کے نشان ثبت کرتا ہوں۔ ان نشانوں میں سے کئی چہرے ابھرتے ہیں اور کھلکھلاتے ہوئے دوڑ جاتے ہیں۔ میں ان کی آنکھوں میں ناچتی ہوئی مسکراہٹ کو سونگھتا ہوں اور سنسان اداس سڑک پر تیز تیز چلنے لگتا ہوں۔
’’یہ سڑک کہاں جاتی ہے؟‘‘ میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں۔
’’جہاں مجھے جانا ہے۔‘‘ میں جواب دیتا ہوں۔
’’اور مجھے کہاں جانا ہے؟‘‘ میں پھر خود سے سوال کرتا ہوں۔
’’جہاں یہ سڑک جاتی ہے۔‘‘
میں چپ ہو جاتا ہوں۔
سڑک اور میں
میں اور سڑک
ہم دونوں کو کہیں جانا ہے۔۔۔ کہاں ؟
میں سڑک کا ہاتھ پکڑ لیتا ہوں اور اسی سے پوچھتا ہوں ، ’’تمہیں معلوم ہے ہمیں کہاں جانا ہے؟‘‘ وہ نفی میں سر ہلاتی ہے۔
میں بھی نفی میں سر ہلاتا ہوں۔
اور ہم دونوں چپ چاپ چلتے رہتے ہیں۔
جب میں پہلی بار اس سے ملنے گیا تو وہ رنگوں کی پیالی میں بیٹھی ہوئی تھی۔ سارا جسم اور چہرہ رنگوں میں ڈوبا ہوا تھا، صرف آنکھیں باہر تھیں۔
میں نے کہا۔۔۔ ’’میں تمہاری تصویریں دیکھنے آیا ہوں۔‘‘
کہنے لگی۔۔۔ ’’میرے پاس تو کوئی تصویر ہے ہی نہیں۔‘‘
لیکن اس کی آنکھیں ہنس پڑیں اور پیالی میں سے نکل کر میرے کان میں سرگوشی کرنے لگیں۔۔۔ ’’جھوٹ بولتی ہے۔‘‘
میں نے کہا۔۔۔ ’’میں بہت دور سے آیا ہوں ، طویل مسافت طے کر کے،مجھے مایوس تو نہ لوٹاؤ۔‘‘
کہنے لگی۔۔۔ ’’میرے پاس تو کوئی تصویر نہیں۔‘‘
میں نے کہا۔۔۔ ’’تو پھر تم پیالی سے باہر کیوں نہیں نکلتیں ؟‘‘
کوئی جواب دینے کے بجائے اس نے پیالی میں ڈبکی لگائی اور اس کی تہہ میں گم ہو گئی۔ میں کچھ دیر اس کے ابھرنے کا انتظار کرتا رہا، پھر میں نے اس کے کمرے کی تلاشی لی۔ الماری میں ایک تصویر رکھی تھی جس میں دو سفید بالوں والے بوڑھے بچے اس کے دونوں کندھوں پر بیٹھے چوسنیاں چوس رہے تھے۔ میں نے جونہی تصویر کو چھوا وہ بلک بلک کر رونے لگے۔
میں نے ان سے کہا۔۔۔ ’’ڈرو نہیں ،میں تمہیں نئی چوسنیاں لا دوں گا۔‘‘
٭٭٭