صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


اک خواب ہے دنیا

عرشی ملک

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

غزل

نگر میں دل کے اب کچھ بھی نہیں ہے

یہاں شور و شغب کچھ بھی نہیں ہے


یہ دل رسماً دھڑکتا جا رہا ہے

دھڑکنے کا سبب کچھ بھی نہیں ہے


نہ جانے کون کب لہجہ بدل لے

یہ دنیا ہے عجب کچھ بھی نہیں ہے


کہا جب ان سے تم مرتے تھے ہم پر

لگے کہنے کہ کب ؟ کچھ بھی نہیں ہے


تعلق تھا تو تھی ناراضگی بھی

پر اب لُطف و غضب کچھ بھی نہیں ہے


نہ وہ پہلے سے اب رنج و الم ہیں

نہ وہ بزمِ طرب کچھ بھی نہیں ہے


تری فرقت کا کیا خدشہ ہو دل کو

تری قربت میں جب کچھ بھی نہیں ہے


جو کہنا تھا کہا کھل کر ہمیشہ

ہمارے زیرِ لب کچھ بھی نہیں ہے


نہ کوئی مصلحت نہ وضع داری

ہمیں جینے کا ڈھب کچھ بھی نہیں ہے


تمہارے ہجر کے مارے ہوؤں کو

ملن کی ایک شب کچھ بھی نہیں ہے


ہمیں جی بھر کے خود کو دیکھنے دو

سوا اس کے طلب کچھ بھی نہیں ہے


مہک اشعار کی بانٹی جہاں میں

پر اپنا یہ کسب کچھ بھی نہیں ہے


میں عورت ہوں ملامت کی ہوں عادی

سو عزت کی طلب کچھ بھی نہیں ہے


بنے بیٹھے ہیں بابائے ادب وہ

جنہیں پاسِ ادب کچھ بھی نہیں ہے


تم اپنے شہرِ دل کو پاک کر لو

فقط عجم و عرب کچھ بھی نہیں ہے


قبا اوڑھی نہیں مانگے کی میں نے

میری کنیت لقب کچھ بھی نہیں ہے


میں بنتِ آدم و حوا ہوں عرشی

مرا نام و نسب کچھ بھی نہیں ہے

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول