صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


نیچے سروں کا احتجاج

الیاس ندوی رام پوری

ڈاؤن لوڈ کریں  

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

لجا

اُس کے دماغ میں ایک زور دار دھماکہ ہوا اور وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ابھی اس کے کپ میں  آدھی سے زیادہ چائے باقی تھی، اس نے ایک ہی چسکی میں کپ خالی کر دیا اور ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گیا۔شام کے ساڑھے نو بج رہے تھے، ٹی وی پر مقامی خبریں نشر کی جا رہی تھیں۔ فی الوقت جو خبر اس کے دماغ میں دھماکے کا سبب بنی تھی وہ کوئی نئی نہیں تھی۔ پچھلے پندرہ دنوں سے سوامی اسیمانند کے اقبالیہ بیان کو لے کر میڈیا میں کافی چرچا تھا۔ تقریباً تمام ہی نیوز چینلز خصوصیت کے ساتھ سوامی سے متعلق خبریں نشر کر رہے تھے۔دراصل اس کے دماغ میں دھماکے کا سبب متعلقہ نیوز سے پیدا ہونے والا ایک خیال تھا۔جو بجلی کی طرح اس کے دماغ کی شریانوں میں کوندا تھا اور دماغ کی دیواروں پر چنگم کی طرح چپک گیا تھا۔

وہ گزشتہ کئی دنوں سے اپنے طور پر یہ جاننے کی کو شش کر رہا تھا کہ اس کا دوست ان دنوں بجھا بجھا سا کیوں لگ رہا ہے، کئی بارا س کے دل میں  آیا کہ اس سے دریافت کرے مگر ہر بار کچھ سوچ کر رہ جاتا۔اس نے کئی طرح کے اسباب پر غور کیا اور کئی سارے خیالات اس کے دماغ میں  آئے بھی مگر سب ایک ایک کر کے ادھر اُدھر رینگ گئے۔ان میں سے کوئی بھی اس کے دماغ کہ تہہ میں کنڈلی مارکر نہ بیٹھ سکا۔

آنند کمار اس کے بچپن کا دوست تھا، اس کے اچھے برے دنوں کا ساتھی۔ہنس مکھ اور زندہ دل۔اس نے اپنی زندگی میں بہت سارے نشیب و فراز دیکھے تھے مگر اس طرح سے تو وہ کبھی بھی نہیں ٹوٹا تھا۔ اگر کبھی جانے انجانے میں ٹوٹ بھی جاتا تھا تو اپنے دل کے سارے ٹکڑے ایک ایک کر کے اس کے سامنے ڈھیر کر دیتا تھا۔وہ ان تمام ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو یکجا کرتا، انہیں ایک دوسرے سے جوڑتا اور ایک نیا دل تیار کر دیتا۔۔۔ اور ایک بار پھر آنند کی زندہ دلی لوٹ آتی۔ مگر اس بار وہ ٹوٹا تو کچھ اس طرح ٹوٹا کہ اس کے وجود پر پراسرار خاموشی چھا گئی، جوں جوں دن گزرتے جا رہے تھے اس کی خاموشی میں پراسراریت کی مزید گرہیں لگتی جا رہی تھیں۔کسی اور کے لیے یہ بات اتنی تکلیف دہ نہ رہی ہو تا ہم اس کے لیے یہ بات بہت تکلیف دہ تھی۔ ایک بات اور بھی تھی جو اس سے بھی زیادہ تعجب خیز تھی۔اس بار آنند نے اپنے دل کے ٹکڑے کسی کے  آگے ڈھیر نہ کئے۔۔۔یہاں تک کہ خود اس کے  آگے بھی نہیں۔۔

اب جب کہ ایک خیال اس کے دماغ میں بجلی کے موافق کوندا تھا اور رگ و پے میں اتر گیا تھا تو اس نے  آنند کی سربستہ خاموشی کے تار کی گرہیں کھولنے کی سوچی۔ چائے کا خالی کپ میز پر رکھا، ٹی وی سوئچ آف کیا اور اہل خانہ کو بنا کچھ بتائے دروازے سے باہر نکل گیا۔

دروازہ کھلا تو ایک سرد ہوا کے جھوکے نے اس کا استقبال کیا، یخ بستہ ہوا کی ایک سرد لہر اس کے پورے وجود میں اوپر سے نیچے تک اترتی چلی گئی۔وہ ہوا کی مخالف سمت میں لمبے لمبے قدم رکھتا ہوا چلتا رہا، کوئی دس منٹ کی مسافت کے بعد ایک جانے پہچانے دروازے پر دستک دی۔ اس سے پہلے اس نے کبھی دستک نہیں دی تھی کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی، وہ جب بھی اس گھر میں  آیا کرتا تو جیسے گھر خود آگے بڑھ کر اس کا استقبال کرتا۔مگر اس بار ایسا نہیں ہوا اور اس کو دستک دینی پڑی۔

’’کون  ؟۔۔‘‘  ایک معصوم نسوانی  آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔

’’میں ہوں۔۔۔  کلیم ‘‘

’’اوہ۔۔انکل، آپ۔۔اندر آئیے نا۔۔‘‘یہ آنند کمار کی بیٹی تھی۔ شاید وہ دوسرے کمرے میں تھی اور دروازے پر دستک سن کر تیزی سے دوڑتی ہوئی  آئی تھی، اسی لیے اس کے سانسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں۔

’’ اندر آئیے نا، انکل۔۔آپ بھی کیا اجنبیوں کی طرح دروازے پر کھڑے ہوئے ہیں ‘‘

’’ابو کہاں ہیں بیٹا؟۔‘‘

’’ابو۔۔ وہ تو باہر گیے ہیں۔۔اور کچھ بتا کر بھی نہیں گئے۔۔بس آتے ہی ہوں گے۔جب تک آپ بیٹھئے۔میں  آپ کے لیے  چائے بنا کر لاتی ہوں۔‘‘

اس نے کچھ جواب نہ دیا اور الٹے پاؤں واپس ہولیا۔ پریتی اس کا منہ تکتی رہ گئی۔ اس نے انکل کا یہ رویہ اور بجھا بجھا چہرہ اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔

’’ ابو، ابھی  آپ کہاں گئے تھے ؟‘‘

’’کہیں نہیں بیٹ    ا، بس یونہی چہل قدمی کرنے گیا تھا‘‘

گیارہ سالہ نعیم اپنے ابو کے اس جواب سے مطمئن نہیں ہوا۔

’’مگر اس طرح چپکے سے نکل گئے، امی پریشان ہو رہی تھیں ‘‘

وہ خاموش رہا اور اپنے سونے کے کمرے کی طر ف چلا گیا۔

بستر پر نیم دراز ہو کر رضائی کو سر تک کھینچا اور خیالوں میں گم ہو گیا۔

وقت الٹے پاؤں تیزی سے دوڑنے لگا اور وہ چند لمحوں میں تیس سال پیچھے چلا گیا، یہ ایک چاندنی رات کا پہلا پہر تھا، ابھی رات نے داؤد نگر کے سینے پر اپنے پر پھیلانے شروع کیے تھے، سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے دو رویہ درختوں پر، در و دیوار پر، چھت اور بالکنی پر اور باہر میدان میں دور دور تک چاندنی چھٹکی ہوئی تھی، داؤد نگر کا چھوٹا سا محلہ حمیر پور بقۂ نور بنا ہوا تھا۔ باہر گلی میں بچے دھما چوکڑی مچا رہے تھے، ان میں روحی بھی تھی اور روحینی بھی، رحیم بھی تھا اور رامو بھی، لالہ موہن داس کا اکلوتا بیٹا بھی تھا اور پان والے شفیق بھائی کا پوتا بھی، آنند بھی تھا اور کلیم بھی۔یہ سب ایک دوسرے کے ناموں سے واقف تھے مگر ان کے معانی سے ناواقف تھے۔ سب بچے دو ٹولیوں میں بٹے ہوئے تھے، ایک ٹولی تاریک جگہوں میں چھپتی پھر رہی تھی اور دوسری ٹولی اس کے تعاقب میں دیواروں اور درختوں کے پیچھے تاک جھانک کر رہی تھی۔کھیل اسی طرح چلتا رہا، یہ عجیب کھیل تھا اس میں نہ ہار کا غم تھا اور نہ جیتنے کی خوشی۔نہ کوئی تعریف کرنے والا ہوتا اور نہ کوئی غلطیاں نکالنے والا، یہ سب بچے خود ہی کھیلتے اور خود ہی دیکھتے تھے۔کبھی روحی چھپتی پھرتی اور روحینی اس کا پیچھا کرتی اور کبھی روحینی چھپتی پھرتی اور روحی اس کے تعاقب میں دوڑتے دوڑتے ہانپنے لگتی۔یہ محض اتفاق نہ تھا کہ کلیم اور  آنند ہمیشہ ایک ہی طرف رہتے تھے، آج رات بھی وہ دونوں ایک طرف ہی تھے، البتہ یہ اتفاق ضرور تھا کہ اس بار بھی انہیں کی ٹولی فتح یاب ہوئی تھی۔

اس نے سڑک کنارے سے پتھر اٹھا یا اور سامنے کھڑے چھوٹے گھنے درخت کی طرف اچھال دیا۔ چڑیوں کا ایک غول چین چیں کرتا ہوا آسمان کی طرف اڑا اور چھوٹا سا ایک چکر کاٹ کر چیں چیں کرتا ہوا واپس درخت کی ننھی ننھی ٹہنیوں میں سما گیا۔

’’یہ کیا کیا تم نے۔۔۔یہ چڑیوں کے  آرام کا وقت ہے، ایسا کرنے سے انہیں تکلیف ہوتی ہے اور کسی بھی جیو کو تکلیف دینا پاپ ہے ‘‘

آنند نے کلیم کے گلے میں باہیں ڈالتے ہوئے کہا۔

اور دونوں دوسرے بچوں سے دور اسکول کی سیڑھیوں پر جا بیٹھے، لمحات کی چین دھیرے دھیرے پیچھے کی طرف سرکتی رہی اور چاندنی  آہستہ آہستہ اپنے جوبن کی طرف بڑھتی رہی۔۔۔

فجر کی اذان کی  آواز سے اس کی  آنکھ کھل گئی اور وہ چشم زدن میں ماضی کی سیڑھیاں عبور کرتا ہوا ہال میں  آ کھڑا ہوا۔

کل جب دیر رات آنند گھر لوٹا تو پریتی اس کی  آنکھوں میں جھانک کر دیکھنے لگی۔

’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘

اور اس نے نظریں بچالیں

’’کچھ نہیں۔۔۔وہ انکل  آئے تھے اور  آپ کو پوچھ رہے تھے۔‘‘

’’تو تم نے کیا کہہ دیا ان سے ‘‘

’’میں کیا کہتی۔۔میں نے بیٹھنے کو کہا، چائے کو پوچھا۔۔ مگر وہ دروازے ہی سے واپس چلے گیے۔ وہ کچھ پریشان لگ رہے تھے۔۔پتہ نہیں کیا بات ہے ؟ آپ کو تو پتہ ہو گانا ابو‘‘

اس نے کچھ جواب نہ دیا اور صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا۔

دوپہر کے دو بج رہے تھے، باہر ملگجی دھوپ پھیلی ہوئی تھی، کل کے مقابلے  آج کا موسم قدرے بہتر تھا مگر ابھی ہوا میں تیزی تھی۔کالج سے واپسی پر اس نے سیدھے کلیم کے گھرکا رخ کیا۔

’’ آ گئے تم۔۔۔؟‘‘

آج خارق عادت تیکھی نظروں نے اس کا استقبال کیا۔

’’ہاں ! آ گیا، بولو کیا بات ہے۔۔رات گھر گئے اور دروازے ہی سے لوٹ آئے۔ تھوڑا انتظار کر لیتے تو بوڑھے نہیں ہو جاتے ‘‘

’’کیا بات ہے۔آج کل بڑے اکھڑے اکھڑے لگ رہے ہو۔۔؟‘‘

کلیم نے  آنند کی  آنکھوں کی پتلیوں میں جھانک کر دیکھا۔

’’کیا بات ہے، میں تمہیں بہت فکر مند دیکھ رہا ہوں ‘‘

کلیم نے اس کے مضرابِ نفس کو چھیڑا۔

مگر ادھر سے کوئی جواب نہ ملا۔ کچھ دیر ماحول پر سکوت چھایا رہا۔ گھر کی بوجھل بوجھل فضا میں دم گھٹنے کا احساس دونوں کو ستانے لگا۔

نو خیز نیوز ریڈر کی کھنکھناتی ہوئی  آواز ساکت فضا میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔

آج بیس دن بعد بھی ٹی وی پر اسیمانند سے متعلق خبریں تسلسل کے ساتھ دکھائی جا رہی تھیں، کئی ٹی وی چینلز خصوصی رپورٹیں پیش کر رہے تھے، چار آنکھیں اسکرین پر جمی ہوئی تھیں اور دو سر زانوں پر رکھے ہوئے تھے۔

’’اسے بند کر دو‘‘ اس نے ٹی وی کی طر اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ آنند کے لہجے میں جھنجلاہٹ تھی۔

’’لیکن کیوں۔۔ ۔۔۔۔؟‘‘

’’نہیں سنا جاتا مجھ سے یہ سب۔۔۔تنگ آ گیا ہوں میں یہ سب دیکھتے دیکھتے۔۔۔دیکھو مجھے کیا حالت ہو گئی ہے میری، کاٹو تو بدن میں خون نہیں۔‘‘

اب اس کا خیال یقین میں بدل چکا تھا، اس نے  آنند کے دونوں ہاتھ اپنے لرزتے ہاتھوں میں تھام لیے۔۔۔

’’آنند! ہوش کے ناخن لو۔۔! سنبھالو اپنے  آپ کو۔۔۔۔، کل جب اے ٹی ایس اندھی بہری ہو کر میرے پیچھے بھاگ رہی تھی، تب میری بھی یہی حالت تھی، بلکہ اس سے بھی زیادہ بری، میں اپنی پوری طاقت سے دوڑ رہا تھا اور تحقیقاتی ایجنسیاں، پولس اور میڈیا میرا تعاقب کر رہی تھیں۔۔۔ میں اور کتنی دیر بھاگ سکتا تھا۔۔ انہوں نے ایک آخری جست لگائی اور مجھے پیچھے سے پکڑ لیا، میری قمیص کے چاک ادھڑ گئے اور میں نیم برہنہ ہو گیا، پھر مجھے میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا اور ساری دنیا کے سامنے عریاں کر دیا۔دنیا میرے  آنکھوں کے سامنے اندھیری ہو گئی۔ غیر مجھ پر تھوکنے لگے اور میرے اپنے مجھ سے بھاگنے لگے۔۔ایک بار تو میں نے خود ہی اپنے ضمیر کی عدالت میں خود کو مجرم قرار دے لیا۔۔۔اس وقت تم بھی میرا درد نہ سمجھ سکے۔۔میں نے تم سے فریاد نہ کی اور تم نے پوچھنے کی ضرورت نہ سمجھی۔میں نے اپنے لب سی لیے اور تم نے اپنے لب سی لیے۔۔۔ آنند! تمہیں کیسے بتاؤں۔بے بسی اور تشنج کی ایک کیفیت تھی جو گھر سے بازار تک، بازار سے کالج تک اور کالج سے پارلیمنٹ تک مستقل میرا پیچھا کر رہی تھی۔۔۔مگر میں پھر بھی تم سے اسی طرح ملتا رہا جس طرح پہلے ملا کرتا تھا۔۔۔ بچپن میں اور جوانی کے دنوں میں۔۔۔میں جب جب بھی تم سے ملتا تھا، اپنے چہرے پر مصنوعی غلاف چڑھا لیا کرتا تھا۔تاکہ میرا اضطراب تمہاری خوشیوں کو میلا نہ کر دے۔۔۔میں ایسے چہرے کے ساتھ تم سے ملتا رہا جس سے تم آشنا تھے۔۔۔وہی جسے تم نے چاندنی رات میں کالج کی سیڑھیوں پر دیکھا تھا، چاند کی مخالف سمت میں، چاند کو منہ چڑھا تا ہوا۔۔۔

اور آج جب کیمرے کا رخ تمہاری طرف ہے تو تم ٹوٹ کر بکھر گئے ہو۔دنیا سے چھپنے کی کوشش کر رہے ہو اور مجھ سے بھی نظر چرا رہے ہو۔آنند ! میں تمہاری تکلیف سمجھ سکتا ہوں۔۔۔۔کیوں کہ میں اس آگ کے دریا سے گزر چکا ہوں۔۔

خدا کرے تمہارے بارے میں بھی یہ سب کچھ جھوٹ ثابت ہو جائے۔۔۔ جس طرح میرے بارے میں سب کچھ جھوٹ ثابت ہو گیا۔۔۔‘‘

آنند کا سر جھکا ہوا تھا اور اس کی  آنکھوں سے ڈھلکتے شبنمی قطرے کلیم کے دل کی گہرائیوں میں ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول