صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


احساسات

فوقؔ کریمی

نظمیں

لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                      ٹیکسٹ فائل

خوں بہا

خون انساں کا نکلتا ہے تو ہوتا ہے وہ سُرخ

خونِ ناحق جو زمیں پر کبھی گر جاتا ہے

مِل کے مٹی میں یہ ہو جاتا ہے مٹ میلا سا

جب زمیں جذب اُسے کرتی ہے اپنے اندر

اور پھر سینچتی ہے خون سے رفتہ رفتہ

پھر اُسی خون سے کچھ پودے جِلا پاتے ہیں

اُن کی شاخوں پہ جو کچھ برگ و ثمر آتے ہیں

دیکھنے میں تو وہ ہوتے ہیں بہت نرم و گداز

ہاتھ لگتے ہی یہ ہو جاتے ہیں شعلے اے دوست

آگ ہی آگ اُگلتی ہے ہر اک پل اُن سے

آگ ظالِم کے لئے قہرِ خدا بنتی ہے

قصرِ شاہی فقط اِس آگ میں جلتا ہے کہاں

آگ ہر ظالم و قاتل کو جلا دیتی ہے

اُن کی نسلوں کو بھی دنیا سے مٹا دیتی ہے

خون ہو سِکھ کا، ہندو کہ مسلمان کا خون

خون تو خون ہے پھر خون ہے انسان کا خون

خون پنجاب میں دِلّی میں کئے ہیں کتنے

خون ملیانہ میں میرٹھ میں بہے ہیں کتنے

شیر خواروں کے یہاں خون بہائے کس نے

بیٹیوں کے کہیں ماؤں کے چھُرے گھونپ دئے

تم تو رہبر ہو ذرا ہاتھ تو دیکھو اپنے

خون میں کیوں ہیں یہ بھیگے ہوئے بولو تو سہی

جو محافظ ہیں وطن کے وہی قاتل ہیں یہاں

کوئی بولے تو سہی فوقؔ کہ اب کیا ہوگا

ملک میں اپنی تباہی کے علاوہ یارو

میری آنکھوں میں ہے مستقبلِ تاریک، وطن

آندھیاں سُرخ نظر آتی ہیں مشرِق کی طرف

سُرخ ہو جائے اِلٰہی نہ کہیں پرچمِ ہند

خونِ ناحق سے خدا ہم کو بچا لے ورنہ

جانے کس کس کو یہاں خوں بہا دینا ہوگا

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں   

   ورڈ فائل                                                                      ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول