صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


جماعت اہل حدیث سے خطاب

مولانا پروفیسر سید ابوبکر غزنویؒ

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

اقتباس

بزرگانِ  کرام، برادران عزیز، عزیزان گرامی قدر!


پھر وضعِ  احتیاط سے رکنے لگا ہے دم

برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے


آپ سے ملاقات کیے ہوئے اور آپ سے بات کیے ہوئے ایک مدت ہو گئی


جسے آپ گنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے با وفا

میں وہی ہوں مؤمنِ  مبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


حضرات! جب میں یہ خیال کرتا ہوں کہ یہ وہ جماعت ہے، جس کی سرزمین گو آج بنجر ہو چکی ہے، مگر یہ وہی سرزمین ہے، جس سے کبھی مولانا حافظ محمد لکھوی رحمہ اللہ، مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ، حضرت عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ اور حضرت الامام مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ ایسے لعل اور یاقوت و گوہر پیدا ہوئے تو یہ سوچ کر کہ شاید اس راکھ میں کوئی چنگاری باقی ہو، یہ شعر پڑھتا ہوا تمہاری طرف کشاں کشاں چلا آتا ہوں:

اَریٰ تَحْتَ الرَّمَادِ وَمِیْضَ جَمْرٍ

وَیُوْشِکُ أَنْ یَّکُوْنَ لَہَا ضِرَامٗ

‘‘خاکستر کے نیچے کچھ چنگاریاں دیکھ رہا ہوں، شاید ان سے شعلے بھڑک اٹھیں۔’’

اور جب یہ آگ جلتی تھی، تو اسے تاپنے کے لیے حرارتِ  ایمانی حاصل کرنے کے لیے لوگ پورب اور پچھم سے آتے تھے۔ جب آپ لوگوں کی اڑنگا پٹخی، دھینگا مشتی اور سرپھٹول دیکھتا ہوں تو جی جلتا ہے۔ ہر طرف خاک اڑائی جا رہی ہے۔ اتنی خاک کہ سب کے سروں پر خاک پڑی ہوئی ہے۔ سب کے چہرے خاک سے یوں لتھڑے ہوئے ہیں کہ میرے لیے شکلیں پہچاننی بھی مشکل ہو گئی ہیں۔ جب یہ صورت حال دیکھتا ہوں تو آپ لوگوں سے بھاگ جاتا ہوں اور سالہا سال آپ سے روپوش رہتا ہوں اور یہ شعر ان دنوں پڑھا کرتا ہوں:

وَنَارٌ لَوْ نَفَخْتَ بِہَا أَضَاءَتْ

وَلٰکِنْ أَنْتَ تَنْفَخُ فِی الرِّمَادٖ

یہ راکھ جس میں تم پھونکیں مار رہے ہو،اگر اس میں کوئی چنگاری ہوتی تو وہ یقیناً بھڑک اٹھتی ، مگر تم راکھ میں پھونکیں مار رہے ہو، راکھ میں پھونکیں مارنے سے اس کے سوا کیا حاصل ہو گا کہ تمہارے سر پر بھی راکھ پڑے گی۔

دوستو! میں تو دہقان ہو۔میرا کام دلوں کی زمین میں ہل چلانا ہے۔ تم نے کہا کہ تم ہماری زمین پہ ہل چلانے کے قابل نہیں ہو۔ میں تو خاندانی اور موروثی طور پر دہقان تھا۔ مجھے تو ہل چلانا ہی تھا۔ مجھے تو آبیاری کرنی ہی تھی۔یہ بات میری گھٹی میں تھی۔ میرے خمیر میں گندھی ہوئی تھی۔ میں نے اور زمینیں ڈھونڈیں۔ دلوں اور روحوں کی زمینیں اور ان زمینوں پہ ہل چلاتا ہوں۔ دوستو! میں تو للاری ہوں، میرا کام دلوں کو خدا کے رنگ میں رنگ دینا ہے:

صِبْغَةَ اللّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عَابِدونَ [البقرة : 138]

‘‘خدا کا رنگ اور اس سے بہتر کس کا رنگ ہوسکتا ہے؟ اور ہم تو بس اس کی غلامی کرتے ہیں۔’’

تم نے کہا کہ تمہیں رنگنا نہیں آتا۔ میں نے ملک میں ہانک لگائی کہ کوئی ہے جو دلوں کو رنگوانا چاہے؟ دیکھو! میرے دروازے پر گاہکوں کی بھیڑ لگی ہے۔

اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول