صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
عہد نامہ (مُدَلَّل)
مفتی محمد ندیم خاں
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
(چند اہم ترین باتیں)
اہل سنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی کے شعائر اور اس کے محبوب بندوں کے تبرکات سے ہر زندہ و مردہ برکات حاصل کرسکتا ہے ۔ اور ایسا کرنا بلاشبہ جائز و مستحسن ہے۔ اور اس بات کے ثبوت و جواز پر قرآنی آیات، احادیث اور اقوال صحابہ و فقہاء موجود ہیں جن کا مطالعہ کر کے ہر ذی عقل و ہدایت مسلمان اس نتیجہ پر بآسانی پہنچ سکتا ہے کہ اللہ کے شعائر، محبوبینِ خدا کے تبرکات، قرآن پاک کی سورتوں، ادعیہ مسنونہ اور عہد نامہ وغیرہ سے توسّل اور برکات حاصل کرنا جائز ہے۔ نیز موت کے بعد گناہگار بندے پر عذابِ الٰہی سے امان اور تخفیف کا قوی امکان و امید ہے۔ لیکن! کچھ لوگ اتنے صریح دلائل کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے نہ صرف منکر ہیں بلکہ اس مستحب و مستحسن کام کو شرک و بدعت سے تعبیر کرتے ہوئے غلط قرار دیتے ہیں اور عوام اہل سنت کے قلوب و اذہان کو اس سے متنفّر کرتے ہیں۔ چنانچہ اس بات کی ضرورت کو محسوس کیا گیا کہ ایک ایسا مدلل اور جامع تحقیق پر مبنی رسالہ بنام عہد نامہ تالیف کیا جائے جس کو عوام اہل سنت بطور تبرک و ثواب اپنے محبوبین کی قبور میں رکھ سکیں اور ساتھ ہی اسے خود بھی پڑھ کر اپنی اور دوسروں کی اصلاح کرسکیں۔اور قبل اس کے کہ ’’ عہد نامہ‘‘ کے جائز و مستحب ہونے پر قرآن اور احادیث مبارکہ سے دلائل پیش کئے جائیں، ہم یہ چاہتے ہیں کہ مخالفین کے نظریۂ بدعت کو مختصر اور جامع انداز میں واضح کر دیں۔
فی
زمانہ بعض لوگوں نے یہ بات بہت عام کر دی ہے کہ فلاں چیز بدعت ہے، حضور کے
زمانے میں نہیں تھی، صحابہ کے زمانے میں نہیں تھی، فلاں نے نہیں کیا وغیرہ
وغیرہ۔ اور یہ باتیں سن کر عام آدمی اپنے جائز کاموں میں شک و شبہ کا شکار
ہو جاتا ہے۔ حالانکہ ان باتوں میں دھوکا اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کیونکہ کسی کام کے جائز اور ناجائز ہونے کے لئے شریعت نے یہ معیار رکھا ہی
نہیں ہے کہ وہ کام حضور کے زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں؟ بلکہ معیار یہ ہے
کہ وہ کام شرعی قوانین اور اسلامی اصول کے دائرے میں ہے یا نہیں؟ اگر اصول
و قوانین کے دائرے میں ہو تو وہ جائز ہے خواہ وہ کسی بھی زمانے میں ہو،
حتی کہ حضور اور صحابہ کے زمانے میں نہ ہوا ہو تب بھی جائز ہے۔ اور اگر
اصول و قوانین کے دائرے سے باہر ہو یعنی شریعت سے متصادم ہو تو وہ ناجائز
ہے۔ مخالفین یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’ جو کام حضور اور صحابہ
کے زمانے میں نہیں ہوا وہ ناجائز ہے‘‘۔ حالانکہ اگر یہ بات درست مان لی
جائے تو بہت سارے دینی معاملات معطل ہو جائیں گے۔ بلکہ جدید دنیا کی ساری
جدتیں اور اضافے بیکار قرار پائیں گے۔ سب سے پہلے قرآن پاک کے اعراب غلط
قرار پائیں گے کیونکہ یہ کام عہد رسالت اور عہد خلافت کے بعد( حجاج بن
یوسف کے زمانے میں) ہوا ہے۔ اسی طرح مساجد کے مینار اور محراب غلط قرار
پائیں گے اور سب سے پہلے حرمین طیبین کے میناروں کے متعلق سوال ہوگا،
کیونکہ حرمین شریفین کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ خود گنبد خضراء(جو عین قبر
رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تعمیر ہے) کا معاملہ معرضِ خطر میں ہوگا۔ صحیح
بخاری، صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث کا وجود بھی ناقابل تسلیم ہوگا کیونکہ
عہد رسالت و صحابہ میں ان کتب کا (مخصوص ترتیب کے ساتھ) وجود نہیں تھا۔
اسی طرح اگر دیکھتے چلے جائیں تو بے شمار چیزیں ایسی سامنے آئیں گی جو عہد
رسالت و صحابہ میں نہیں تھیں، لیکن اب ان پر مسلمان بہت فراخدلی سے عمل
پیرا ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی عقلمند ان چیزوں کو ناجائز یا ان کو ختم کرنے
کا قول نہیں کرے گا۔
ہم اپنے زمانے میں دیکھتے ہیں
کہ ہر مکتب فکر کی مسجد میں ایک مخصوص وقت پر جماعت قائم ہوتی ہے اور یہ
وقت گھڑی کی مدد سے متعین کیا گیا ہے، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے زمانے میں جماعت کے لئے اوقات متعین نہیں تھے۔ اس کے باوجود کوئی
اس عمل کو ناجائز نہیں کہتا۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے
زمانۂ اقدس میں عام معمول یہ تھا کہ صحابۂ کرام مساجد میں صرف فرض نماز
ادا کرتے تھے اور سنن و نوافل اپنے اپنے گھروں میں ادا کرتے تھے یا ادا کر
کے آتے تھے۔ (سنن ابو داؤد، رقم الحدیث: 1044) جبکہ فی زمانہ نبی صلی اللہ
علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا یہ طریقہ تمام مکاتب فکر کی مساجد میں
بالعموم متروک ہو چکا ہے اور اب حال یہ ہے کہ تقریباً تمام ہی لوگ فرائض
کے ساتھ سنن و نوافل بھی مسجد میں ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح دینی مدارس میں
بالخصوص دیو بندیوں کے مدارس میں تعلیمی سال کے اختتام پر ختم بخاری شریف
کی تقریب منعقد ہوتی ہے، حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے
میں نہ بخاری شریف تھی اور نہ اس کا ختم ہوتا تھا۔ یوم سیدنا صدیق اکبر
رضی اللہ عنہ پر سپاہ صحابہ کا جلوس، بارہ ربیع الاول کی شب جامعہ بنوریہ
میں عالمی محفل حسن قرات کا اہتمام، ربیع الاول کے ایام میں ’’سیرت
کانفرنس‘‘ کے عنوان سے جماعت اسلامی کے جلسے، مختلف علماء کے ایصال ثواب
کے لئے دارالعلوم بنوری ٹاؤن میں بڑے پیمانے پر اجتماعی قرآن خوانی کا
اہتمام، یہ وہ سب کام ہیں جو علماء دیوبند کے باہمی محبت و اتفاق سے عرصۂ
دراز سے انجام پا رہے ہیں مگر کوئی ان کو بدعت کہہ کر ختم کرنے کی بات
نہیں کرتا۔ مخالفین کی یہ دہری پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے!!!
مخالفین
کا ایک فریب یہ بھی ہوتا ہے کہ ’’ہر بدعت اور نئی چیز بری ہے‘‘۔ حالانکہ
احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ ہر بدعت بری نہیں ہوتی بلکہ بعض بری ہوتی ہیں
اور بعض اچھی۔ اچھی بدعت پر اجر و ثواب ہے اور بری بدعت پر گناہ۔ جیسا کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مَنْ سَنَّ فِیْ الاِسْلَامِ
سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہ اَجْرُھَا وَ اَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ
بَعْدِہ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَنْقُصَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شِئٌ وَ مَنْ سَنَّ
فِیْ الاِسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّئَۃً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُھَا وَ وِزْرُ
مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَنْقُصَ مِنْ
اَوْزَارِھِمْ شَئٌ ‘‘۔ (ترجمہ:) جس نے دین اسلام میں کوئی اچھا طریقہ
ایجاد کیا تو اسے اس ایجاد کا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والے تمام
لوگوں کا اجر و ثواب ملتا رہے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر و ثواب میں
کوئی کمی نہیں کی جائے گی(جبکہ وہ شخص) جس نے دین میں برا طریقہ رائج کیا
تو اس پر اس ایجاد کا اور اس کے بعد اس پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کا
بوجھ رہے گا اور عمل کرنے والوں کے بوجھ میں کمی نہیں ہوگی۔(حوالہ کے لیے
دیکھئے: صحیح مسلم: حدیث #1017/ سنن نسائی:حدیث# 2554/ مسند احمد: ج4،
ص359/مشکوۃ المصابیح:حدیث # 210،ص33)
اس حدیث میں
واضح طور پر دین اسلام میں اچھے طریقے ایجاد کرنے پر اجر و ثواب بیان کیا
گیا ہے۔ اگر ہر نیا طریقہ اور ہر بدعت اسلام میں ممنوع ہوتی تو نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم اجر و ثواب بیان نہ فرماتے۔ معلوم ہوا کہ ہر بدعت کو
برا سمجھنا محض نادانی اور شریعت سے بے خبری ہے۔اس تمہیدی اور ضروری گفتگو
کے بعد اب ہم عہد نامہ کی دعاؤں اور دلائل پر جامع کلام کریں گے۔
اقتباس
٭٭٭