صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
دنیا خوبصورت ہے
عطا الحق قاسمی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
وہ میرے ساتھ تھی
دن
کی بھاگ دوڑ اور رات کی بے آرامی نے مجھے بے حد تھکا دیا تھا، میں نے اپنی
نشست کو سرکائی اور سر سیٹ پر ٹکا کر آنکھیں موند لیں اور پھر وہ اپنی
پازیبیں چھنکاتی میرے برابر میں آن کھڑی ہوئی، اس کی مخروطی انگلیاں میرے
بالوں میں رینگ رہی تھیں، اس کے سانسوں کی مہر میرے مشام جاں کو معطر کر
رہی تھی۔
پھر اس کی مندروں کی گھنٹیوں ایسی آواز نے میرے کانوں میں رس سا گھول دیا۔
تم بہت خوش تھے کہ ملک سے باہر جا رہا ہوں چلو کچھ سن کے لئے اس سے جان چھوٹی مگر میں تمہارا پیچھا چھوڑنے والی نہیں ہوں، تم جہاں بھی جاؤ گے میں تمہارے ساتھ رہوں گی، تم پھول سے خوشبو کو تو جدا نہیں کر سکتے۔
تم مجھ سے کب جدا ہو میرا تو کوئی لمحہ تمہارے خیال سے خالی نہیں میں جب تمہارے ساتھ زمین پر چلتا ہو تو زمین میرے پاؤں کے نیچے پھول بچھا دیتی ہے۔
میں نے اس کے پھول ایسے چہرے کو دونوں ہاتھوں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا۔
اس نے اپنی جھیل سی آنکھوں سے لمبی لمبی پلکوں کی جھالر اوپر اٹھائی اس کے چہرے پر حیا کے شفق رنگ ابھرے اور اس نے اپنا ریشم جیسا ہاتھ میرے ہاتھوں پر رکھ دیا۔
بنکاک کی آمد آمد تھی، جہاز میں ایک کھلبلی سی مچ گئی، اس ہنگامے میں وہ ایک بار پھر میری نظروں سے اوجھل ہو گئی جو میری تنہائیوں کو اپنی رفاقتیں سونپ دیتی ہیں، میں نے کھڑکی میں سے نیچے دیکھا تو تھائی لینڈ کی خوبصورت سر زمین کو اپنا منتظر پایا مجھ سے اگلی نشستوں کے مسافر اچھل اچھل کر کھڑکی سے باہر جھانک رہے تھے، وہ شاید رن وے پر بھی بنکاک کے شعلے تلاش کر رہے تھے،ان کا خیال تھا کہ سول ایوی ایشن کا عملہ بھی جہاز کو لینڈ کرانے کی بجائے ہاتھ میں بینر لئے کھڑا ہو گا، بیوٹی فل گرل، اونلی فور ٹین ائیرز اولڈ، پلیز ٹڑائی، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ سول ایوی ایشن کے عملے نے صرف جہاز کو لینڈ کرایا، تھائی لینڈ میں لینڈنگ کے لئے ان مسافروں کو یقیناً ائیر پورٹ سے ہوٹل تک کا سفر اختیار کرنا پڑا ہو گا، کراچی سے بنکاک تک کی پرواز پانچ گھنٹے کی تھی، ہم تھکے ہارے ائیر رپورٹ کی عمارت میں داخل ہوئے جہاں کچھ دیر قیام کرنا تھا تاکہ سنگاپور کے لئے کینٹاس ائیر لائن کی فلائٹ پکڑ سکیں، سنگاپور میں بھی ہمارا قیام صرف ایک رات کے لئے تھا، البتہ آسڑیلیا سے واپسی پر ہم نے تین دن اس شہر میں گزارنا تھے جس کی جھلک میں اس سے پہلے دو دفعہ دیکھ چکا ہوں، لیکن اس پر بھر پور نظر ڈالنے کا موقع واپسی پر ہی ملنا تھا، جب انسان کا پورا دن بھاگ دوڑ میں گزرتا ہے،اور ساری رات جاگ کر گذاری ہو اس کی ذہنی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، سو اس وقت ہم سب تھکے تھکے سے تھے، سوائے قیمو صاحب کئے جو ہمیشہ کی طرح تر و تازہ تھے، اور اب ائیر پورٹ کے ایک کونے میں معمول کی ورزش کا کوٹہ پورا کرنے کھڑے کھڑے پاؤں کو حرکت دے رہے تھے۔
***
پھر اس کی مندروں کی گھنٹیوں ایسی آواز نے میرے کانوں میں رس سا گھول دیا۔
تم بہت خوش تھے کہ ملک سے باہر جا رہا ہوں چلو کچھ سن کے لئے اس سے جان چھوٹی مگر میں تمہارا پیچھا چھوڑنے والی نہیں ہوں، تم جہاں بھی جاؤ گے میں تمہارے ساتھ رہوں گی، تم پھول سے خوشبو کو تو جدا نہیں کر سکتے۔
تم مجھ سے کب جدا ہو میرا تو کوئی لمحہ تمہارے خیال سے خالی نہیں میں جب تمہارے ساتھ زمین پر چلتا ہو تو زمین میرے پاؤں کے نیچے پھول بچھا دیتی ہے۔
میں نے اس کے پھول ایسے چہرے کو دونوں ہاتھوں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا۔
اس نے اپنی جھیل سی آنکھوں سے لمبی لمبی پلکوں کی جھالر اوپر اٹھائی اس کے چہرے پر حیا کے شفق رنگ ابھرے اور اس نے اپنا ریشم جیسا ہاتھ میرے ہاتھوں پر رکھ دیا۔
بنکاک کی آمد آمد تھی، جہاز میں ایک کھلبلی سی مچ گئی، اس ہنگامے میں وہ ایک بار پھر میری نظروں سے اوجھل ہو گئی جو میری تنہائیوں کو اپنی رفاقتیں سونپ دیتی ہیں، میں نے کھڑکی میں سے نیچے دیکھا تو تھائی لینڈ کی خوبصورت سر زمین کو اپنا منتظر پایا مجھ سے اگلی نشستوں کے مسافر اچھل اچھل کر کھڑکی سے باہر جھانک رہے تھے، وہ شاید رن وے پر بھی بنکاک کے شعلے تلاش کر رہے تھے،ان کا خیال تھا کہ سول ایوی ایشن کا عملہ بھی جہاز کو لینڈ کرانے کی بجائے ہاتھ میں بینر لئے کھڑا ہو گا، بیوٹی فل گرل، اونلی فور ٹین ائیرز اولڈ، پلیز ٹڑائی، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ سول ایوی ایشن کے عملے نے صرف جہاز کو لینڈ کرایا، تھائی لینڈ میں لینڈنگ کے لئے ان مسافروں کو یقیناً ائیر پورٹ سے ہوٹل تک کا سفر اختیار کرنا پڑا ہو گا، کراچی سے بنکاک تک کی پرواز پانچ گھنٹے کی تھی، ہم تھکے ہارے ائیر رپورٹ کی عمارت میں داخل ہوئے جہاں کچھ دیر قیام کرنا تھا تاکہ سنگاپور کے لئے کینٹاس ائیر لائن کی فلائٹ پکڑ سکیں، سنگاپور میں بھی ہمارا قیام صرف ایک رات کے لئے تھا، البتہ آسڑیلیا سے واپسی پر ہم نے تین دن اس شہر میں گزارنا تھے جس کی جھلک میں اس سے پہلے دو دفعہ دیکھ چکا ہوں، لیکن اس پر بھر پور نظر ڈالنے کا موقع واپسی پر ہی ملنا تھا، جب انسان کا پورا دن بھاگ دوڑ میں گزرتا ہے،اور ساری رات جاگ کر گذاری ہو اس کی ذہنی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، سو اس وقت ہم سب تھکے تھکے سے تھے، سوائے قیمو صاحب کئے جو ہمیشہ کی طرح تر و تازہ تھے، اور اب ائیر پورٹ کے ایک کونے میں معمول کی ورزش کا کوٹہ پورا کرنے کھڑے کھڑے پاؤں کو حرکت دے رہے تھے۔
***