صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


دم چھلا
اور دوسرے افسانے

رمزی آثم

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

دم چھلا

بڑی بی بی جی کی چھوٹی بیٹی ہمیشہ مجھے ایک ہی طعنہ مارتی " دم چھلا "ہر وقت ہماری ماں کے پیچھے لگا رہتا ہے۔۔۔۔لیکن مجھے کبھی اس کے اس طنزیہ جملے پر غصہ نہیں آیا بالکل میں اس کے اس طنزیہ جملے کے جواب میں ایک حقارت بھری نظر اس کے مسخ شدہ چہرے پر ڈالتا اور آگے بڑھ جاتا.


میں واقعی بڑی بی بی جی کا دم چھلا ہوں اور اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ وہ مجھے زیادہ تنخواہ دیتی ہیں یا کھانے کو کچھ زیادہ مل جاتا ہے بالکل اس کا سبب یہ ہے کہ بی بی جی اذیت ناک حد تک خوبصورت ہیں اتنی خوبصورت کہ ان کو دیکھ کر پتھر پگھل جائیں اور میں تو ایک انسان ہوں۔


میرے باپ نے چوہدری صاحب سے کچھ پیسے ادھار لئے تھے جسے وہ ساری عمر نہ چکا سکا اور مر گیا باپ کے مرنے کے بعد چوہدری نے اپنا سارا پیسہ سود سمیت واپس لے لیا۔ مجھے تین وقت کی روٹی اور عید تہوار پر کپڑوں کے عوض اپنے گھر ملازم رکھ لیا جب میں یہاں آیا تھا اس وقت میری عمر سولہ سال تھی میں ایک سیدھا سدھا نوجوان تھا اب میں گزشتہ پانچ سال سےچودہری عاشق کی اس عظیم الشان حویلی کے سرونٹ کواٹر میں رہائش پذیر ہوں میرے علاوہ اس گھر میں چند اور بھی ملازم اور ملازمائیں ہیں اندر کے سب کام ملازمائیں کرتی اور باہر کے کام ملازم۔میرے علاوہ کسی ملازم کو اجازت نہیں کہ حویلی کے اندر داخل ہو سکے یہ عنایت خاص صرف مجھی پر ہے کہ میں جب چاہوں حویلی کے اندر باہر آ جا سکتا ہوں اس کا سبب کیا ہے یہ مجھے خود نہیں معلوم۔ ۔۔۔لیکن میں بھی ایک خاص وقت تک حویلی کے اندر رہ سکتا ہوں جب تک بی بی جی چاہیں چوہدری صاحب شہر والے بنگلے میں اپنی نئی شہری بیگم کے ساتھ رہتے ہیں مہینے میں صرف ایک دو بار ہی ان کا ادھر آنا ہوتا اور ان کی زیادہ تر مصروفیات زمینوں کی دیکھ لیکھ سے جڑی ہوئی ہوتی وہ کچھ دن حویلی میں رہتے اور پھر واپس اپنی شہر والی بیگم صاحبہ کے پاس چلے جاتے لیکن اس بار تو انھوں نے حد ہی کر دی تین مہینے سے ادھر کا رخ نہیں گیا۔


بی بی جی سے چوہدری صاحب کی دو بیٹیاں ہیں جو اپنی باپ پر گئی ہیں بد شکل اور بد تمیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ایک آنکھ اچھی نہیں لگتی تھیں سارا دن اپنے باپ کی طرح مجھ پر حکم چلاتی رہتی لیکن میں ان پر زیادہ دھیان نہیں دیتا اور اپنا زیادہ سے زیادہ وقت بڑی بی بی جی کے ساتھ لگا رہتا انھیں کے کام کرتا اس سے مجھے خوشی ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ چوہدری کی بیٹی مجھے دم چھلے کا طعنہ مارتی اگر وہ بھی اپنی ماں کی طرح خوبصورت ہوتی تو مجھے ان کی غلامی کرنے کا ملال نہ ہوتا۔


پوری حویلی میں بی بی جی ہی ایک ایسا نگینہ ہیں جن کی وجہ سے میں یہاں ٹکا ہوا ہوں ورنہ کب کا یہاں سے بھاگ گیا ہوتا۔ بی بی جی غصب کی خوبصورت ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن چوہدری صاحب پر تو آج کل شہری بیگم کا نشہ چڑھا ہوا ہے یہ بوتل تو انھوں نے کھولی چھوڑی ہوئی ہے میرا دل چاہتا ہے کہ کھلی شراب کی اس بوتل میں سے کچھ گھونٹ پی لوں لیکن میں اس شراب کو چکھنے کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس جرم کی سزا صرف موت ہے بعض اوقات کسی لمحے میں بی بی جی میرے اتنے قریب آ جاتی ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں ناگ کی طرح ان سے لپٹ جاؤں میرا جسم جہنم کی آگ کی طرح دھکنے لگتاجس سے شعلے نکلنے لگتے اور پھر سرد ہو جاتے ہیں میں نے اپنے ارادوں پر جبر کا تالہ ڈالا ہوا ہے۔

اقتباس

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول