صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اردو ڈرامے
یک بابی ڈراموں کا انتخاب
سید معز الدین احمد فاروق
ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ اول ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
حصہ دوم ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
محبت کی پیدائش
سعادت حسن منٹو
(خالدسیٹی بجارہاہے۔ سیٹی بجاتابجاتاخاموش ہوجاتاہے۔ پھر ہولے ہولے اپنے آپ سے کہتاہے۔)
خالد :اگرمحبت ہاکی یافٹ بال میچوں میں کپ جیتنے، تقریرکرنے اور امتحانوں میں پاس ہوجانے کی طرح آسان ہوتی توکیاکہنے تھے۔ ۔ ۔ مجھے سب کچھ مل پاتا۔ سب کچھ (پھرسیٹی بجاتاہے) نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑ رہی ہیں اس چھوٹے سے باغیچے کی پتی پتی خوشی سے تھرارہی ہے پر میں خوش نہیں ہوں ۔ میں بالکل خوش نہیں ہوں۔
حمیدہ :(دھیمے لہجے میں) خالدصاحب!
(خالدخاموش رہتاہے)
حمیدہ :(ذرازورسے)خالد صاحب!
خالد :(چونک کر) کیاہے؟کوئی مجھے بلارہاہے؟
حمیدہ :میں ہوں!۔ ۔ ۔ مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے۔
خالد :اوہ!حمیدہ۔ ۔ ۔ کہو، یہ ضروری کام کیاہے۔ ۔ ۔ میں یہاں یونہی لیٹے لیٹے اونگھنے لگ گیاتھا۔ کیاکسی کتاب کے بارے میں کچھ کہنا ہے؟ ۔ ۔ ۔ مگرتم نے مجھے اتناقابل کیوں سمجھ رکھاہے۔ ۔ ۔ فلسفے میں میں اتناہوشیار نہیں جتنی کہ تم ہو۔ عورتیں فطرتاً فلسفی ہوتی ہیں۔
حمیدہ :میں آپ سے فلسفے کے بارے میں گفتگوکرنے نہیں آئی۔ افلاطون اور ارسطواس معاملے میں میری مددنہیں کرسکتے جتنی آپ کرسکتے ہیں۔
خالد :میں حاضرہوں۔
حمیدہ :میںبہت جرأت سے کام لے کرآپ کے پاس آئی ہوں۔ آپ یقین کیجئے کہ میں نے بہت بڑی جرأت کی ہے۔ ۔ ۔ بات یہ ہے ۔ ۔ ۔ مجھے شرم محسوس ہورہی ہے۔ ۔ ۔ مگرنہیں۔ ۔ ۔ اس میں شرم کی کونسی بات ہے ۔ ۔ ۔ مجھے یہ کہنا ہے کہ پرسوں رات میں نے اباجی کوامی جان سے یہ کہتے سناکہ وہ آپ سے میری شادی کررہے ہیں۔
خالد :(خوش ہوکر) سچ مچ؟
حمیدہ :جی ہاں ۔ ۔ ۔ میں نے یہ سناہے کہ بات پکی ہوگئی ہے۔ ۔ ۔ اور اس فائنل کے بعدہم بیاہ دیئے جائیں گے۔
خالد :(خوشی کے جذبات کودبانے کی کوشش کرتے ہوئے) حدہوگئی ہے ۔ ۔ ۔ مجھے توکسی نے بتایاہی نہیں ۔ ۔ ۔ یہ چپکے چپکے انھوں نے بڑا دلچسپ کھیل کھیلا۔ ۔ ۔ دراصل بات یوں ہوئی ہے کہ میں نے اپنی امی جان سے ایک دومرتبہ ۔ ۔ ۔ تمہاری تعریف کی تھی اور کہاتھاکہ جوشخص حمیدہ جیسی ۔ ۔ ۔ حمیدہ جیسی ۔ ۔ ۔ حمیدہ جیسی۔ ۔ ۔ حمیدہ جیسی پیاری لڑکی کا شوہر بنے گا۔ ۔ ۔ وہ کس قدر خوش نصیب ہوگادہنستا ہے حد ہوگئی ہے ۔ ۔ ۔ میں یہاں اسی فکر میں گھلاجارہاتھاکہ تم کہیں کسی اورکی نہ ہو۔ جاؤ (خوب ہنستاہے) ۔ ۔ ۔ دیکھونیلے آسمان میں ابابیلیں اڑرہی ہیں۔ ۔ ۔ اس باغیچے کی پتی پتی خوشی سے تھرارہی ہے۔ ۔ ۔ اور میں بھی خوش ہوں ۔ ۔ ۔ کس قدر خوش (ہنستا ہے) حمیدہ اب تمہیں ہم سے پردہ کرنا چاہئے ۔ ۔ ۔ ہم تمہارے ہونے والے شوہرہیں۔
حمیدہ :مگرمجھے یہ شادی منظورنہیں۔!
خالد :شادی منظورنہیں ۔ ۔ ۔ پھرتم نے یہ بات کیوں چھیڑی؟۔ ۔ ۔ میں تمہیں ناپسندہوں کیا؟
حمیدہ :خالد صاحب!میں اس معاملے پرزیادہ گفتگو کرنانہیں چاہتی۔ میں آپ سے صرف یہ کہنے آئی تھی کہ اگرہماری شادی ہوگئی۔ تویہ میری مرضی کے خلاف ہوگی۔ ہماری دونوں کی زندگی اگرہمیشہ کے لئے تلخ ہوگئی تواس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ میں نے اپنے دل کی بات آپ سے چھپا کر نہیں رکھی، جوفرض میرے ماں باپ کواداکرنا چاہئے تھا۔ میں نے ادا کردیاہے آپ عقل مندہیں۔ روشن خیال ہیں۔ اس لئے میں آپ کے پاس آئی۔ ورنہ یہ راز قبرتک میرے سینے میں محفوظ رہتا۔
خالد :یہ جھوٹ ہے میں تم سے محبت کرتاہوں۔
حمیدہ :ہوگا۔ مگرمیں آپ سے محبت نہیں کرتی۔
خالد :اس میں میراکیاقصورہے؟
حمیدہ :اوراس میں میراکیاقصورہے؟
خالد :حمیدہ تم اچھی طرح جانتی ہوکہ میں جھوٹ نہیں بولاکرتا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میرادل تمہاری اورصرف تمہاری محبت سے بھراہے۔
حمیدہ :لیکن میرادل بھی توآپ کی محبت سے بھراہو۔ ۔ ۔ میرے اندر سے بھی تو یہ آواز پیداہوکہ حمیدہ آپ کوچاہتی ہے ۔ ۔ ۔ میں بھی توآپ سے جھوٹ نہیں کہہ رہی ۔ ۔ ۔ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں توآپ کی محبت اس وقت مجھ پرکیااثرکرسکتی ہے جب میرادل آپ کی محبت سے خالی ہو۔
خالد :ایک دیادوسرے دیئے کوروشن کرسکتاہے۔
حمیدہ :صرف اس صورت میں جب دوسرے دیئے میں تیل موجود ہو۔ ۔ ۔ یہاں میرادل توبالکل خشک ہے آپ کی محبت کیاکرسکے گی۔ میں نے آج تک آپ کوان نگاہوں سے کبھی نہیں دیکھاجومحبت پیداکرسکتی ہیں ۔ ۔ ۔ اس کے علاوہ کوئی خاص بات بھی تونہیں ہوئی جس سے یہ جذبہ پیا ہوسکے۔ ۔ ۔ لیکن میں آپ کے بارے میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ آپ اچھے نوجوان ہیں بااخلاق ہیں۔ کالج میں سب سے زیادہ ہوشیار طالب علم ہیں۔ آپ کی صحت آپ کی علمیت، آپ کی قابلیت قابل رشک ہے۔ آپ ہمیشہ میری مددکرتے رہے ہیں۔ مگرمجھے افسوس ہے کہ میرے دل میں آپ کی محبت ذرہ بھربھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ میر اخیال ہوسکتا ہے کہ درست نہ ہو۔ پریہ تمام خوبیاں جوآپ کے اندرموجود ہیں ضروری نہیںکہ وہ کسی عورت کے دل میں آپ کی محبت پیداکردیں۔
خالد :تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ مجھے اس کااحساس ہے۔
حمیدہ :توکیامیں امیدرکھوں کہ آپ مجھے اس بے مرضی کی شادی سے بچانے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔
خالد :مجھ سے جوکچھ ہوسکے گا۔ ضرور کروں گا۔
حمیدہ :تومیں جاتی ہوں ۔ ۔ ۔ بہت بہت شکریہ!
(چندلمحات تک خاموشی طاری رہتی ہے۔ ۔ ۔ خالد درد ناک سروں میں سیٹی بجاتاہے۔ ۔ ۔ )
خالد :سسکیوں میں نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑرہی ہیں۔ اس چھوٹے سے بغیچے کی پتی پتی خوشی سے تھرتھرارہی ہے۔ میں خوش نہیں۔ بالکل خوش نہیں ہوں۔
(اسی روزشام کوخالد کے گھرمیں)
ڈپٹی صاحب :(خالد کاباپ۔ دروازے پرآہستہ سے دستک دے کر)بھئی میں ذرا اندرآسکتاہوں۔
خالد :آئیے آئیے۔ اباجی!
ڈپٹی صاحب :میں نے بہت مشکل سے تمہارے ساتھ چندباتین کرنے کی فرصت نکالی۔ یوں کہوکہ ایسااتفاق ہوگیاکہ تم بھی گھرمیں موجودہواور مجھے بھی ایک، آدھ گھنٹے تک کوئی کام نہیں۔ ۔ ۔ بات یہ ہے کہ تمہاری ماں نے تمہاری شادی کی بات چیت پکی کردی ہے لڑکی حمیدہ ہے جس کو تم اچھی طرح جانتے ہو۔ تمہاری کلاس میٹ ہے اورمیں نے سناہے کہ تم دل ہی دل میں اس سے ذرا۔ ۔ ۔ محبت بھی کرتے ہوچلواچھاہوا۔ ۔ ۔ اب تمہیں اورکیاچاہئے۔ ۔ ۔ امتحان پاس کرواور دلہن کولے آؤ۔
خالد :پراباجی،میں نے تویہ سن رکھاتھاکہ حمیدہ کی شادی مسٹربشیر سے ہوگی جو پچھلے برس ولایت سے ڈاکٹری امتحان پاس کرکے آئے ہیں۔
ڈپٹی صاحب :شادی اس سے ہونے والی تھی مگرحمیدہ کے والدین کوجب معلوم ہوا کہ وہ شرابی اورآوارہ مزاج ہے توانھوں نے یہ خیال موقوف کردیا لیکن تمہیں ان باتوں سے کیاتعلق۔ ۔ ۔ حمیدہ تمہاری ہورہی ہے۔ ہورہی ہے کیا ہوچکی ہے۔
خالد :حمیدہ راضی ہے کیا؟
ڈپٹی صاحب :ارے راضی کیوں نہ ہوگی؟جب ڈپٹی ظہوراحمد کے بیٹے خالد کی شادی کاسوال ہو، تواس میں رضامندی کی ضرورت ہی کیا ہے۔
خالد :مجھے بنارہے ہیں آپ؟
ڈپٹی صاحب :رہنے دو۔اس قصے کو، مجھے اوربہت سے کام کرناہے۔ اچھا تومیں چلا ۔ ۔ ۔ پرایک اوربات بھی تومجھے تم سے کرناتھی۔ تمہاری ماں نے ایک لمبی چوڑی فہرست بناکردی تھی۔ ۔ ۔ ہاں یاد آیا۔ ۔ ۔ دیکھو بھئی نکاح کی رسم پرسوں یعنی اتوارکواداہوگی۔ اس لئے کہ حمیدہ کاباپ حج کوجانے سے پہلے اس فرض سے سبکدوش ہوجاناچاہتاہے۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، ایسا ہی ہوناچاہئے اورجب تمہاری ماں کہہ دے توپھراس میں کسی کلام کی گنجائش نہیں رہتی۔ ۔ ۔ میں نے ان لوگوں سے کہہ دیاہے کہ ہم سب تیارہیں۔ تمہیں جن لوگوں کوInvite کرناہوگاکرلینا۔ مجھے اس درد سری میں مبتلانہ کرنابھئی، میں بہت مصروف آدمی ہوں۔
خالد :بہت اچھااباجی!
ڈپٹی صاحب :ہاں ایک اور بات۔ ۔ ۔ ممکن ہے کہ میں تم سے کہنابھول جاؤں اس لئے ابھی سے کان کھول کر سن لو۔ ۔ ۔ (رازدارانہ لہجہ میں) شادی کے بعد اپنی بیوی کوسرپرنہ چڑھالینا۔ ورنہ یادرکھو، بڑی آفتوں کاسامنا کرنا پڑے گا۔ اپنی ماں کی طرف دیکھ لو، کس طرح مجھے نکیل ڈالے رکھتی ہے۔
خالد :(ہنستا ہے)۔ ۔ ۔ نصیحت کاشکریہ!
ڈپٹی صاحب :شکریہ وکریہ کچھ نہیں تم سے جوکچھ میں نے کہاہے اس کاخیال رکھنا اور بس ۔ ۔ ۔ تومیں چلا۔ ۔ ۔ نکاح کے ایک روز پہلے مجھے یاددلادینا۔ تاکہ میں کہیں اورنہ چلاجاؤں۔
خالد :بہت اچھااباجی!
(دروازہ بندکرنے کی آواز)
خالد :(ہولے ہولے گویاگہری فکرمیں غرق ہے) بہت اچھااباجی۔ ۔ ۔ بہت اچھااباجی۔ ۔ ۔ میں نے کتنی جلدی کہہ دیابہت اچھااباجی۔ ۔ ۔ بہت اچھا ۔ ۔ ۔ جوکچھ کہاہواہے۔ ۔ ۔ اب اس کے سوااورچارہ ہی کیا ہے ۔ ۔ ۔ نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑتی رہیںگی بغیچوں میں پتیاں خوشی سے تھرتھراتی رہیں گی اوریہ دل ہمیشہ کے لئے اجڑجائے گا۔ ۔ ۔ اجڑجائے گا!
(تیسرے روزکالج میں پرنسپل کادفتر)
(گھنٹی بجائی جاتی ہے پھردروازہ کھولاجاتاہے۔)
چپراسی :جی حضور!
پرنسپل :خالدکواندربھیج دو۔
چپراسی :بہت اچھاحضور!
(دروازہ کھولنے اوربندہونے کی آواز پھرخالد کے آنے کی آواز)
پرنسپل :(کھانستا ہے) تمہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے؟
(خالد خاموش رہتاہے۔)
پرنسپل :(بارعب لہجے میں )تمہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے؟
خالد :کچھ نہیں۔ میرادل کوڑے کرکٹ سے صاف ہے۔
پرنسپل :تم گستاخ بھی ہوگئے ہو؟
خالد :کالج میں اگرکوئی گستاخ لڑکانہ ہوتوپرنسپل اپنی قوتوں سے بے خبر رہتا ہے اگراس کمرے کوجس میں آپ رہتے ہیں ترازو فرض کرلیا جائے تو میں اس ترازو کی وہ سوئی ہوں جووزن بتاتی ہے۔
پرنسپل :تم مجھے اپنی اس بے ہودہ مطق سے مرعوب نہیں کرسکتے۔
خالد :یہ میں اچھی طرح جانتاہوں۔
پرنسپل :(زورسے) تم خاک بھی نہیں جانتے۔
خالد :آپ بجافرمارہے ہیں۔
پرنسپل :میںبجانہیں فرمارہا۔ اگرمیرافرمانابجاہوتاتوکل تم ایسی بے ہودہ حرکت کبھی نہ کرتے جس نے تمہیں سب لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کردیا ہے اب تم میں اورایک بازاری غنڈے میںکیافرق رہاہے۔
خالد :آپ سے عرض کروں؟
پرنسپل :کرو۔ کروکیاعرض کرناچاہتے ہوتمہاری یہ نئی منطق بھی سن لوں!
خالد :بازاری غنڈہ چوک میںکھڑاہوکرجو اس کے دل میں آئے کہہ سکتا ہے مگرمیں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ مجھ میں اتنی قوت نہیں ہے کہ اپنے دل کا تالا کھول سکوں جوتہذیب آج سے بہت عرصہ پہلے لگاچکی ہے بازاری غنڈہ مجھ سے ہزاردرجے بہترہے۔
پرنسپل :جوتھوڑابہت تم میں اوراس میں باقی رہ گیاہے اب پوراکرلو۔ ۔ ۔ میں تمہیں اپنے کالج سے باہر نکال رہاہوں۔
خالد :مگر۔ ۔ ۔
پرنسپل :مگروگرکچھ بھی نہیں۔ میں فیصلہ کرچکاہوں میرے کالج میں ایسالڑکا ہرگز نہیں رہ سکتا۔ ۔ ۔ جوبدچلن ہو، آوارہ ہو۔ کالج میں شراب پی کر آنا ایسا جرم نہیں کہ سزادیئے بغیر تمہیں چھوڑدیاجائے۔
خالد :اپنے آپ پردوبارہ غورفرمائیے۔ اتنی جلدی نہ کیجئے۔ ۔ ۔ آپ مجھے اپنے کالج سے ہمیشہ کے لئے باہر نہیں نکال سکتے۔
پرنسپل :(غصے میں) کیا کہا۔
خالد :میںنے یہ کہاتھاکہ مجھے اپنے کالج سے کیسے باہر نکال سکتے ہیں۔ ۔ ۔ آپ کو۔ ۔ ۔ آپ کو۔ ۔ ۔ میرے چلے جانے سے کیاآپ کونقصان نہ ہوگا؟
پرنسپل :نقصان؟تمہارے چلے جانے سے مجھے کیانقصان ہوسکتاہے۔ تم جیسے دو درجن لڑکے میرے کالج سے چلے جائیں۔ خس کم جہاں پاک!
خالد :آپ میرامطلب نہیں سمجھے پرنسپل صاحب!مجھے افسوس ہے کہ اب مجھے خود ستائی سے کام لینا پڑے گا۔ آپ کے سامنے یہ کالابورڈ جو لٹک رہاہے اس پرسب سے اوپرکس کانام لکھاہے۔ آپ بتانے کی تکلیف گورانہ کیجئے۔ یہ اسی آوارہ اوربدچلن کانام لکھاہے، جویہ ظاہر کرتاہے کہ بی اے میں وہ صوبے بھرمیں اول رہا۔ اس بورڈ کے ساتھ ہی ایک اور بورڈ لٹک رہاہے جوآپ کوبتاسکتاہے کہ ہندوستان کی کسی یونیورسٹی کا ہوشیار سے ہوشیار طالب علم بھی آپ کے کالج کی کالی بھیڑخالد کا مقابلہ نہیں کرسکا۔ تقریر میں اس نے تین سال تک کسی کوآگے بڑھنے نہیں دیا۔ آپ کے پیچھے ایک اورتختہ لٹک رہاہے۔ اگرآپ کبھی اس پر نظرڈالیں توآپ کومعلوم ہوسکتاہے کہ خالد جب سے آپ کی ہاکی ٹیم کا کپتان بناہے شکست ناممکن ہوگئی ہے۔ فٹ بال کی ٹیم میں مجھ سے بہتر گول کیپرآپ کہاں سے تلاش کریں گے؟اخبارلکھتے ہیں کہ میں لوہے کا مضبوط جال ہوں، سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔ ۔ ۔ اورپچھلے برس میچ میں ہنگامہ برپاہوگیاتھا۔ توآپ کوبچانے کے لئے کس نے آگے بڑھ کر ڈھال کاکام دیاتھا اسی خاکسارنے۔ ۔ ۔ آپ اپنے فیصلے پردوبارہ غور کیجئے۔
پرنسپل :کیااب احسان جتلاکرتم مجھے رشوت دینے کی کوشش کررہے ہو۔
خالد :پرنسپل صاحب آج کل دنیا کے سارے دھندے اسی طرح چلتے ہیں بچہ جب روئے نہیں ماں دودھ نہیں دیتی یہ توآپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ مگرآپ کویہ بھی معلوم ہوناچاہئے کہ پڑوس میں اگربن ماں کا یتیم بچہ روناشروع کردے تومیری ماں دودھ کی بوتل لے کرادھر کبھی نہیں دوڑے گی۔ ۔ ۔ آپ نے آج تک مجھ پراتنی مہربانیاں کی ہیں تومحض! اس لئے کہ مجھ میں خوبیاں تھیں اورآپ مجھے پسند کرتے تھے اورمیں نے اس روز آپ کواس لئے بچایاتھا کہ وہ میرافرض تھا۔ میں آپ کو رشوت نہیں دے رہا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ سزادے کررہیں گے۔ میں خودسزاچاہتاہوں۔ مگرکڑی نہیں ۔ ۔ ۔ رشوت تووہاں دی جاتی ہے جہاں بالکل اجنبیت ہو۔
پرنسپل :تم تقریر کرناخوب جانتے ہو۔
خالد :(ہنس کر)یہ کالابورڈ بھی جوآپ کے سامنے لٹک رہاہے یہی کہتا ہے۔
پرنسپل :خالد۔ ۔ ۔ میں حیران ہوں کہ تم نے کالج میں شراب پی کرادھم کیوں مچایا۔ ۔ ۔ تم شریرضرورتھے، مگرمجھے معلوم نہ تھا۔ تم شراب بھی پیتے ہو۔ تمہارے کیریکٹرکے بارے میں مجھے کوئی شکایت نہ تھی۔ مگرکل کے واقعہ نے تمہیں بہت پیچھے ہٹادیاہے۔
خالد :جب کھائی پھاندناہوتوہمیشہ دس بیس قدم پیچھے ہٹ کر کوشش کی جاتی ہے ہوسکتاہے کہ میں نے اپنی زندگی میںایک گہری کھائی پھاندنے کی کوشش کی ہو۔
پرنسپل :مجھے افسوس ہے کہ تم اس کوشش میں اوندھے اس گہری کھائی میں گر پڑے ہو۔
خالد :ایساہی ہوگا۔ مگرمجھے افسوس نہیں۔
پرنسپل :تواب تم کیاچاہتے ہو؟
خالد :میں کیاچاہتاہوں؟۔ ۔ ۔ کاش کہ میں کچھ چاہ سکتا۔ آپ سے میری صرف یہ گذارش ہے کہ سزادیتے وقت پرانے خالدکویاد رکھئے۔ بس۔!
پرنسپل :تمہیں ایک سال کے لئے کالج سے خارج کردینے کاحکم میںلکھ چکا ہوں یہ سزاتمہاری ذلیل حرکت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس لئے تم معلوم کرسکتے ہوکہ پرانے خالدکومیں نے ابھی تک دل سے محو نہیں کیا۔
خالد :میں آپ کابے حد ممنون ہوں۔ ایک سال کے بعدجب خالد پھر آپ کے پاس آئے گا۔ تووہ پراناہی ہوگا۔
پرنسپل :اب تم چپ چاپ یہاں سے چلے جاؤاوردیکھو۔ اس غم کودور کرنے کے لئے کہیں شراب خانے کارخ نہ کرنا۔
خالد :ایک بارجومیں نے پی ہے۔ وہی عمربھرکے لئے کافی ہے آپ بے فکر رہیں۔
(دروازہ کھلنے اوربندکرنے کی آواز)
خالد :اگرمحبت ہاکی یافٹ بال میچوں میں کپ جیتنے، تقریرکرنے اور امتحانوں میں پاس ہوجانے کی طرح آسان ہوتی توکیاکہنے تھے۔ ۔ ۔ مجھے سب کچھ مل پاتا۔ سب کچھ (پھرسیٹی بجاتاہے) نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑ رہی ہیں اس چھوٹے سے باغیچے کی پتی پتی خوشی سے تھرارہی ہے پر میں خوش نہیں ہوں ۔ میں بالکل خوش نہیں ہوں۔
حمیدہ :(دھیمے لہجے میں) خالدصاحب!
(خالدخاموش رہتاہے)
حمیدہ :(ذرازورسے)خالد صاحب!
خالد :(چونک کر) کیاہے؟کوئی مجھے بلارہاہے؟
حمیدہ :میں ہوں!۔ ۔ ۔ مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے۔
خالد :اوہ!حمیدہ۔ ۔ ۔ کہو، یہ ضروری کام کیاہے۔ ۔ ۔ میں یہاں یونہی لیٹے لیٹے اونگھنے لگ گیاتھا۔ کیاکسی کتاب کے بارے میں کچھ کہنا ہے؟ ۔ ۔ ۔ مگرتم نے مجھے اتناقابل کیوں سمجھ رکھاہے۔ ۔ ۔ فلسفے میں میں اتناہوشیار نہیں جتنی کہ تم ہو۔ عورتیں فطرتاً فلسفی ہوتی ہیں۔
حمیدہ :میں آپ سے فلسفے کے بارے میں گفتگوکرنے نہیں آئی۔ افلاطون اور ارسطواس معاملے میں میری مددنہیں کرسکتے جتنی آپ کرسکتے ہیں۔
خالد :میں حاضرہوں۔
حمیدہ :میںبہت جرأت سے کام لے کرآپ کے پاس آئی ہوں۔ آپ یقین کیجئے کہ میں نے بہت بڑی جرأت کی ہے۔ ۔ ۔ بات یہ ہے ۔ ۔ ۔ مجھے شرم محسوس ہورہی ہے۔ ۔ ۔ مگرنہیں۔ ۔ ۔ اس میں شرم کی کونسی بات ہے ۔ ۔ ۔ مجھے یہ کہنا ہے کہ پرسوں رات میں نے اباجی کوامی جان سے یہ کہتے سناکہ وہ آپ سے میری شادی کررہے ہیں۔
خالد :(خوش ہوکر) سچ مچ؟
حمیدہ :جی ہاں ۔ ۔ ۔ میں نے یہ سناہے کہ بات پکی ہوگئی ہے۔ ۔ ۔ اور اس فائنل کے بعدہم بیاہ دیئے جائیں گے۔
خالد :(خوشی کے جذبات کودبانے کی کوشش کرتے ہوئے) حدہوگئی ہے ۔ ۔ ۔ مجھے توکسی نے بتایاہی نہیں ۔ ۔ ۔ یہ چپکے چپکے انھوں نے بڑا دلچسپ کھیل کھیلا۔ ۔ ۔ دراصل بات یوں ہوئی ہے کہ میں نے اپنی امی جان سے ایک دومرتبہ ۔ ۔ ۔ تمہاری تعریف کی تھی اور کہاتھاکہ جوشخص حمیدہ جیسی ۔ ۔ ۔ حمیدہ جیسی ۔ ۔ ۔ حمیدہ جیسی۔ ۔ ۔ حمیدہ جیسی پیاری لڑکی کا شوہر بنے گا۔ ۔ ۔ وہ کس قدر خوش نصیب ہوگادہنستا ہے حد ہوگئی ہے ۔ ۔ ۔ میں یہاں اسی فکر میں گھلاجارہاتھاکہ تم کہیں کسی اورکی نہ ہو۔ جاؤ (خوب ہنستاہے) ۔ ۔ ۔ دیکھونیلے آسمان میں ابابیلیں اڑرہی ہیں۔ ۔ ۔ اس باغیچے کی پتی پتی خوشی سے تھرارہی ہے۔ ۔ ۔ اور میں بھی خوش ہوں ۔ ۔ ۔ کس قدر خوش (ہنستا ہے) حمیدہ اب تمہیں ہم سے پردہ کرنا چاہئے ۔ ۔ ۔ ہم تمہارے ہونے والے شوہرہیں۔
حمیدہ :مگرمجھے یہ شادی منظورنہیں۔!
خالد :شادی منظورنہیں ۔ ۔ ۔ پھرتم نے یہ بات کیوں چھیڑی؟۔ ۔ ۔ میں تمہیں ناپسندہوں کیا؟
حمیدہ :خالد صاحب!میں اس معاملے پرزیادہ گفتگو کرنانہیں چاہتی۔ میں آپ سے صرف یہ کہنے آئی تھی کہ اگرہماری شادی ہوگئی۔ تویہ میری مرضی کے خلاف ہوگی۔ ہماری دونوں کی زندگی اگرہمیشہ کے لئے تلخ ہوگئی تواس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ میں نے اپنے دل کی بات آپ سے چھپا کر نہیں رکھی، جوفرض میرے ماں باپ کواداکرنا چاہئے تھا۔ میں نے ادا کردیاہے آپ عقل مندہیں۔ روشن خیال ہیں۔ اس لئے میں آپ کے پاس آئی۔ ورنہ یہ راز قبرتک میرے سینے میں محفوظ رہتا۔
خالد :یہ جھوٹ ہے میں تم سے محبت کرتاہوں۔
حمیدہ :ہوگا۔ مگرمیں آپ سے محبت نہیں کرتی۔
خالد :اس میں میراکیاقصورہے؟
حمیدہ :اوراس میں میراکیاقصورہے؟
خالد :حمیدہ تم اچھی طرح جانتی ہوکہ میں جھوٹ نہیں بولاکرتا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میرادل تمہاری اورصرف تمہاری محبت سے بھراہے۔
حمیدہ :لیکن میرادل بھی توآپ کی محبت سے بھراہو۔ ۔ ۔ میرے اندر سے بھی تو یہ آواز پیداہوکہ حمیدہ آپ کوچاہتی ہے ۔ ۔ ۔ میں بھی توآپ سے جھوٹ نہیں کہہ رہی ۔ ۔ ۔ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں توآپ کی محبت اس وقت مجھ پرکیااثرکرسکتی ہے جب میرادل آپ کی محبت سے خالی ہو۔
خالد :ایک دیادوسرے دیئے کوروشن کرسکتاہے۔
حمیدہ :صرف اس صورت میں جب دوسرے دیئے میں تیل موجود ہو۔ ۔ ۔ یہاں میرادل توبالکل خشک ہے آپ کی محبت کیاکرسکے گی۔ میں نے آج تک آپ کوان نگاہوں سے کبھی نہیں دیکھاجومحبت پیداکرسکتی ہیں ۔ ۔ ۔ اس کے علاوہ کوئی خاص بات بھی تونہیں ہوئی جس سے یہ جذبہ پیا ہوسکے۔ ۔ ۔ لیکن میں آپ کے بارے میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ آپ اچھے نوجوان ہیں بااخلاق ہیں۔ کالج میں سب سے زیادہ ہوشیار طالب علم ہیں۔ آپ کی صحت آپ کی علمیت، آپ کی قابلیت قابل رشک ہے۔ آپ ہمیشہ میری مددکرتے رہے ہیں۔ مگرمجھے افسوس ہے کہ میرے دل میں آپ کی محبت ذرہ بھربھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ میر اخیال ہوسکتا ہے کہ درست نہ ہو۔ پریہ تمام خوبیاں جوآپ کے اندرموجود ہیں ضروری نہیںکہ وہ کسی عورت کے دل میں آپ کی محبت پیداکردیں۔
خالد :تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ مجھے اس کااحساس ہے۔
حمیدہ :توکیامیں امیدرکھوں کہ آپ مجھے اس بے مرضی کی شادی سے بچانے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔
خالد :مجھ سے جوکچھ ہوسکے گا۔ ضرور کروں گا۔
حمیدہ :تومیں جاتی ہوں ۔ ۔ ۔ بہت بہت شکریہ!
(چندلمحات تک خاموشی طاری رہتی ہے۔ ۔ ۔ خالد درد ناک سروں میں سیٹی بجاتاہے۔ ۔ ۔ )
خالد :سسکیوں میں نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑرہی ہیں۔ اس چھوٹے سے بغیچے کی پتی پتی خوشی سے تھرتھرارہی ہے۔ میں خوش نہیں۔ بالکل خوش نہیں ہوں۔
(اسی روزشام کوخالد کے گھرمیں)
ڈپٹی صاحب :(خالد کاباپ۔ دروازے پرآہستہ سے دستک دے کر)بھئی میں ذرا اندرآسکتاہوں۔
خالد :آئیے آئیے۔ اباجی!
ڈپٹی صاحب :میں نے بہت مشکل سے تمہارے ساتھ چندباتین کرنے کی فرصت نکالی۔ یوں کہوکہ ایسااتفاق ہوگیاکہ تم بھی گھرمیں موجودہواور مجھے بھی ایک، آدھ گھنٹے تک کوئی کام نہیں۔ ۔ ۔ بات یہ ہے کہ تمہاری ماں نے تمہاری شادی کی بات چیت پکی کردی ہے لڑکی حمیدہ ہے جس کو تم اچھی طرح جانتے ہو۔ تمہاری کلاس میٹ ہے اورمیں نے سناہے کہ تم دل ہی دل میں اس سے ذرا۔ ۔ ۔ محبت بھی کرتے ہوچلواچھاہوا۔ ۔ ۔ اب تمہیں اورکیاچاہئے۔ ۔ ۔ امتحان پاس کرواور دلہن کولے آؤ۔
خالد :پراباجی،میں نے تویہ سن رکھاتھاکہ حمیدہ کی شادی مسٹربشیر سے ہوگی جو پچھلے برس ولایت سے ڈاکٹری امتحان پاس کرکے آئے ہیں۔
ڈپٹی صاحب :شادی اس سے ہونے والی تھی مگرحمیدہ کے والدین کوجب معلوم ہوا کہ وہ شرابی اورآوارہ مزاج ہے توانھوں نے یہ خیال موقوف کردیا لیکن تمہیں ان باتوں سے کیاتعلق۔ ۔ ۔ حمیدہ تمہاری ہورہی ہے۔ ہورہی ہے کیا ہوچکی ہے۔
خالد :حمیدہ راضی ہے کیا؟
ڈپٹی صاحب :ارے راضی کیوں نہ ہوگی؟جب ڈپٹی ظہوراحمد کے بیٹے خالد کی شادی کاسوال ہو، تواس میں رضامندی کی ضرورت ہی کیا ہے۔
خالد :مجھے بنارہے ہیں آپ؟
ڈپٹی صاحب :رہنے دو۔اس قصے کو، مجھے اوربہت سے کام کرناہے۔ اچھا تومیں چلا ۔ ۔ ۔ پرایک اوربات بھی تومجھے تم سے کرناتھی۔ تمہاری ماں نے ایک لمبی چوڑی فہرست بناکردی تھی۔ ۔ ۔ ہاں یاد آیا۔ ۔ ۔ دیکھو بھئی نکاح کی رسم پرسوں یعنی اتوارکواداہوگی۔ اس لئے کہ حمیدہ کاباپ حج کوجانے سے پہلے اس فرض سے سبکدوش ہوجاناچاہتاہے۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، ایسا ہی ہوناچاہئے اورجب تمہاری ماں کہہ دے توپھراس میں کسی کلام کی گنجائش نہیں رہتی۔ ۔ ۔ میں نے ان لوگوں سے کہہ دیاہے کہ ہم سب تیارہیں۔ تمہیں جن لوگوں کوInvite کرناہوگاکرلینا۔ مجھے اس درد سری میں مبتلانہ کرنابھئی، میں بہت مصروف آدمی ہوں۔
خالد :بہت اچھااباجی!
ڈپٹی صاحب :ہاں ایک اور بات۔ ۔ ۔ ممکن ہے کہ میں تم سے کہنابھول جاؤں اس لئے ابھی سے کان کھول کر سن لو۔ ۔ ۔ (رازدارانہ لہجہ میں) شادی کے بعد اپنی بیوی کوسرپرنہ چڑھالینا۔ ورنہ یادرکھو، بڑی آفتوں کاسامنا کرنا پڑے گا۔ اپنی ماں کی طرف دیکھ لو، کس طرح مجھے نکیل ڈالے رکھتی ہے۔
خالد :(ہنستا ہے)۔ ۔ ۔ نصیحت کاشکریہ!
ڈپٹی صاحب :شکریہ وکریہ کچھ نہیں تم سے جوکچھ میں نے کہاہے اس کاخیال رکھنا اور بس ۔ ۔ ۔ تومیں چلا۔ ۔ ۔ نکاح کے ایک روز پہلے مجھے یاددلادینا۔ تاکہ میں کہیں اورنہ چلاجاؤں۔
خالد :بہت اچھااباجی!
(دروازہ بندکرنے کی آواز)
خالد :(ہولے ہولے گویاگہری فکرمیں غرق ہے) بہت اچھااباجی۔ ۔ ۔ بہت اچھااباجی۔ ۔ ۔ میں نے کتنی جلدی کہہ دیابہت اچھااباجی۔ ۔ ۔ بہت اچھا ۔ ۔ ۔ جوکچھ کہاہواہے۔ ۔ ۔ اب اس کے سوااورچارہ ہی کیا ہے ۔ ۔ ۔ نیلے آسمان میں ابابیلیں اڑتی رہیںگی بغیچوں میں پتیاں خوشی سے تھرتھراتی رہیں گی اوریہ دل ہمیشہ کے لئے اجڑجائے گا۔ ۔ ۔ اجڑجائے گا!
(تیسرے روزکالج میں پرنسپل کادفتر)
(گھنٹی بجائی جاتی ہے پھردروازہ کھولاجاتاہے۔)
چپراسی :جی حضور!
پرنسپل :خالدکواندربھیج دو۔
چپراسی :بہت اچھاحضور!
(دروازہ کھولنے اوربندہونے کی آواز پھرخالد کے آنے کی آواز)
پرنسپل :(کھانستا ہے) تمہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے؟
(خالد خاموش رہتاہے۔)
پرنسپل :(بارعب لہجے میں )تمہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے؟
خالد :کچھ نہیں۔ میرادل کوڑے کرکٹ سے صاف ہے۔
پرنسپل :تم گستاخ بھی ہوگئے ہو؟
خالد :کالج میں اگرکوئی گستاخ لڑکانہ ہوتوپرنسپل اپنی قوتوں سے بے خبر رہتا ہے اگراس کمرے کوجس میں آپ رہتے ہیں ترازو فرض کرلیا جائے تو میں اس ترازو کی وہ سوئی ہوں جووزن بتاتی ہے۔
پرنسپل :تم مجھے اپنی اس بے ہودہ مطق سے مرعوب نہیں کرسکتے۔
خالد :یہ میں اچھی طرح جانتاہوں۔
پرنسپل :(زورسے) تم خاک بھی نہیں جانتے۔
خالد :آپ بجافرمارہے ہیں۔
پرنسپل :میںبجانہیں فرمارہا۔ اگرمیرافرمانابجاہوتاتوکل تم ایسی بے ہودہ حرکت کبھی نہ کرتے جس نے تمہیں سب لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کردیا ہے اب تم میں اورایک بازاری غنڈے میںکیافرق رہاہے۔
خالد :آپ سے عرض کروں؟
پرنسپل :کرو۔ کروکیاعرض کرناچاہتے ہوتمہاری یہ نئی منطق بھی سن لوں!
خالد :بازاری غنڈہ چوک میںکھڑاہوکرجو اس کے دل میں آئے کہہ سکتا ہے مگرمیں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ مجھ میں اتنی قوت نہیں ہے کہ اپنے دل کا تالا کھول سکوں جوتہذیب آج سے بہت عرصہ پہلے لگاچکی ہے بازاری غنڈہ مجھ سے ہزاردرجے بہترہے۔
پرنسپل :جوتھوڑابہت تم میں اوراس میں باقی رہ گیاہے اب پوراکرلو۔ ۔ ۔ میں تمہیں اپنے کالج سے باہر نکال رہاہوں۔
خالد :مگر۔ ۔ ۔
پرنسپل :مگروگرکچھ بھی نہیں۔ میں فیصلہ کرچکاہوں میرے کالج میں ایسالڑکا ہرگز نہیں رہ سکتا۔ ۔ ۔ جوبدچلن ہو، آوارہ ہو۔ کالج میں شراب پی کر آنا ایسا جرم نہیں کہ سزادیئے بغیر تمہیں چھوڑدیاجائے۔
خالد :اپنے آپ پردوبارہ غورفرمائیے۔ اتنی جلدی نہ کیجئے۔ ۔ ۔ آپ مجھے اپنے کالج سے ہمیشہ کے لئے باہر نہیں نکال سکتے۔
پرنسپل :(غصے میں) کیا کہا۔
خالد :میںنے یہ کہاتھاکہ مجھے اپنے کالج سے کیسے باہر نکال سکتے ہیں۔ ۔ ۔ آپ کو۔ ۔ ۔ آپ کو۔ ۔ ۔ میرے چلے جانے سے کیاآپ کونقصان نہ ہوگا؟
پرنسپل :نقصان؟تمہارے چلے جانے سے مجھے کیانقصان ہوسکتاہے۔ تم جیسے دو درجن لڑکے میرے کالج سے چلے جائیں۔ خس کم جہاں پاک!
خالد :آپ میرامطلب نہیں سمجھے پرنسپل صاحب!مجھے افسوس ہے کہ اب مجھے خود ستائی سے کام لینا پڑے گا۔ آپ کے سامنے یہ کالابورڈ جو لٹک رہاہے اس پرسب سے اوپرکس کانام لکھاہے۔ آپ بتانے کی تکلیف گورانہ کیجئے۔ یہ اسی آوارہ اوربدچلن کانام لکھاہے، جویہ ظاہر کرتاہے کہ بی اے میں وہ صوبے بھرمیں اول رہا۔ اس بورڈ کے ساتھ ہی ایک اور بورڈ لٹک رہاہے جوآپ کوبتاسکتاہے کہ ہندوستان کی کسی یونیورسٹی کا ہوشیار سے ہوشیار طالب علم بھی آپ کے کالج کی کالی بھیڑخالد کا مقابلہ نہیں کرسکا۔ تقریر میں اس نے تین سال تک کسی کوآگے بڑھنے نہیں دیا۔ آپ کے پیچھے ایک اورتختہ لٹک رہاہے۔ اگرآپ کبھی اس پر نظرڈالیں توآپ کومعلوم ہوسکتاہے کہ خالد جب سے آپ کی ہاکی ٹیم کا کپتان بناہے شکست ناممکن ہوگئی ہے۔ فٹ بال کی ٹیم میں مجھ سے بہتر گول کیپرآپ کہاں سے تلاش کریں گے؟اخبارلکھتے ہیں کہ میں لوہے کا مضبوط جال ہوں، سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔ ۔ ۔ اورپچھلے برس میچ میں ہنگامہ برپاہوگیاتھا۔ توآپ کوبچانے کے لئے کس نے آگے بڑھ کر ڈھال کاکام دیاتھا اسی خاکسارنے۔ ۔ ۔ آپ اپنے فیصلے پردوبارہ غور کیجئے۔
پرنسپل :کیااب احسان جتلاکرتم مجھے رشوت دینے کی کوشش کررہے ہو۔
خالد :پرنسپل صاحب آج کل دنیا کے سارے دھندے اسی طرح چلتے ہیں بچہ جب روئے نہیں ماں دودھ نہیں دیتی یہ توآپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ مگرآپ کویہ بھی معلوم ہوناچاہئے کہ پڑوس میں اگربن ماں کا یتیم بچہ روناشروع کردے تومیری ماں دودھ کی بوتل لے کرادھر کبھی نہیں دوڑے گی۔ ۔ ۔ آپ نے آج تک مجھ پراتنی مہربانیاں کی ہیں تومحض! اس لئے کہ مجھ میں خوبیاں تھیں اورآپ مجھے پسند کرتے تھے اورمیں نے اس روز آپ کواس لئے بچایاتھا کہ وہ میرافرض تھا۔ میں آپ کو رشوت نہیں دے رہا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ سزادے کررہیں گے۔ میں خودسزاچاہتاہوں۔ مگرکڑی نہیں ۔ ۔ ۔ رشوت تووہاں دی جاتی ہے جہاں بالکل اجنبیت ہو۔
پرنسپل :تم تقریر کرناخوب جانتے ہو۔
خالد :(ہنس کر)یہ کالابورڈ بھی جوآپ کے سامنے لٹک رہاہے یہی کہتا ہے۔
پرنسپل :خالد۔ ۔ ۔ میں حیران ہوں کہ تم نے کالج میں شراب پی کرادھم کیوں مچایا۔ ۔ ۔ تم شریرضرورتھے، مگرمجھے معلوم نہ تھا۔ تم شراب بھی پیتے ہو۔ تمہارے کیریکٹرکے بارے میں مجھے کوئی شکایت نہ تھی۔ مگرکل کے واقعہ نے تمہیں بہت پیچھے ہٹادیاہے۔
خالد :جب کھائی پھاندناہوتوہمیشہ دس بیس قدم پیچھے ہٹ کر کوشش کی جاتی ہے ہوسکتاہے کہ میں نے اپنی زندگی میںایک گہری کھائی پھاندنے کی کوشش کی ہو۔
پرنسپل :مجھے افسوس ہے کہ تم اس کوشش میں اوندھے اس گہری کھائی میں گر پڑے ہو۔
خالد :ایساہی ہوگا۔ مگرمجھے افسوس نہیں۔
پرنسپل :تواب تم کیاچاہتے ہو؟
خالد :میں کیاچاہتاہوں؟۔ ۔ ۔ کاش کہ میں کچھ چاہ سکتا۔ آپ سے میری صرف یہ گذارش ہے کہ سزادیتے وقت پرانے خالدکویاد رکھئے۔ بس۔!
پرنسپل :تمہیں ایک سال کے لئے کالج سے خارج کردینے کاحکم میںلکھ چکا ہوں یہ سزاتمہاری ذلیل حرکت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس لئے تم معلوم کرسکتے ہوکہ پرانے خالدکومیں نے ابھی تک دل سے محو نہیں کیا۔
خالد :میں آپ کابے حد ممنون ہوں۔ ایک سال کے بعدجب خالد پھر آپ کے پاس آئے گا۔ تووہ پراناہی ہوگا۔
پرنسپل :اب تم چپ چاپ یہاں سے چلے جاؤاوردیکھو۔ اس غم کودور کرنے کے لئے کہیں شراب خانے کارخ نہ کرنا۔
خالد :ایک بارجومیں نے پی ہے۔ وہی عمربھرکے لئے کافی ہے آپ بے فکر رہیں۔
(دروازہ کھلنے اوربندکرنے کی آواز)