صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


دوزخی

عصمت چغتائی

خاکہ

ڈاؤن لوڈ کریں  

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

اقتباس

جب تک کالج سر پر سوار رہا پڑھنے لکھنے سے فرصت ہی نہ ملی جو ادب کی طرف توجہ کی جاتی اور کالج سے نکل کر بس دل میں یہی بات بیٹھ گئی کہ ہر چیز جو دو سال پہلے لکھی گئی بوسیدہ، بد مذاق اور جھوٹی ہے۔ نیا ادب صرف آج اور کل میں ملے گا۔ اس نئے ادب نے اس قدر گڑبڑایا کہ نہ جانے کتنی کتابیں صرف نام دیکھ کر ہی واہیات سمجھ کر پھینک دیں اور سب سے زیادہ بیکار کتابیں جو نظر آئیں وہ عظیم بیگ چغتائی کی تھیں۔ گھر کی مرغی دال برابر والا مضمون۔ گھر کے ہر کونے میں ان کی کتابیں رلتی پھرتیں۔ مگر سوائے اماں اور دو ایک پرانے فیشن کی بھابیوں کے کسی نے اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ یہی خیال ہوتا بھلا ان میں ہو گا ہی کیا۔ یہ ادب نہیں پھکڑ، مذاق، پرانے عشق کے سڑیل قصے اور جی جلانے والی باتیں ہوں گی۔ یعنی بے پڑھے رائے قائم، مجھے خود یقین نہیں آیا کہ میں نے عظیم بھائی کی کتابیں کیوں نہ پڑھیں۔ شاید اس میں تھوڑا سا غرور بھی شامل تھا اور خود ستائی بھی۔ یہ خیال ہوتا تھا یہ پرانے ہیں ہم نئے۔


ایک دن یونہی لیٹے لیٹے ان کا ایک مضمون ’یکہ‘ نظر آیا میں اور رحیم پڑھنے لگے۔ نہ جانے کس دھن میں تھے کہ ہنسی آنے لگی اور اس قدر آئی کہ پڑھنا دشوار ہو گیا ہم پڑھ ہی رہے تھے کہ عظیم بھائی آ گئے اور اپنی کتاب پڑھتے دیکھ کر کھل گئے مگر ہم جیسے چڑ گئے اور منہ بنانے لگے وہ ایک ہوشیار تھے بولے لاؤ میں تمہیں سناؤں۔ اور یہ کہہ کر دو ایک مضمون جو ہمیں سنائے تو صحیح معنوں میں ہم زمین پر لوٹنے لگے۔ ساری بناوٹ غائب ہو گئی۔ ایک تو ان کے مضمون اور پھر ان کی زبانی۔ معلوم ہوتا تھا ہنسی کی چنگاریاں اڑ رہی ہیں۔ جب وہ خوب احمق بنا چکے تو بولے۔


تم لوگ تو کہتے ہو میرے مضمونوں میں کچھ نہیں۔ اور انہوں نے چھیڑا ۔ لو ہمارے منہ اتر کر ذرا ذرا سے نکل آئے اور بے طرح چڑ گئے۔ جھنجلا کر الٹی سیدھی باتیں کرنے لگے۔ جی جل گیا اور پھر اس کے بعد اور بھی ان کی کتابوں سے نفرت ہو گئی۔


میں نے ان کے مضامین کی ان کی زندگی میں کبھی تعریف نہ کی۔ حالانکہ وہ میرے مضمون دیکھ کر ایسے خوش ہوتے تھے کہ بیان نہیں۔ اس قدر پیار سے تعریف کرتے تھے مگر یہاں تو ان کی ہر بات سے چڑنے کی عادت تھی۔ میں سمجھتی تھی کہ وہ میرا مذاق اڑاتے ہیں اور بخدا وہ شخص جب کسی کا مذاق اڑاتا تھا تو جی چاہتا تھا بچوں کی طرح زمین پر مچل جائیں اور روئیں۔ کس قدر طنز، کیسی کڑوی مسکراہٹ اور کٹتے ہوئے جملے۔ میں تو ہر وقت ڈرتی تھی کہ میرا مذاق اڑایا اور میں نے بدزبانی کی۔


کبھی کہتے تھے کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم مجھ سے اچھا نہ لکھنے لگو۔ اور میں نے صرف چند مضمون لکھے تھے اس لیے جی جلتا تھا کہ یہ میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔


ان کے انتقال کے بعد نہ جانے کیوں مرنے والے کی چیزیں پیاری ہو گئیں۔ ان کا ایک ایک لفظ چبھنے لگا اور میں نے عمر میں پہلی دفعہ ان کی کتابیں دل لگا کر پڑھیں۔ دل لگا کر پڑھنے کی بھی خوب رہی۔ گویا دل لگانے کی بھی ضرورت تھی! دل خود بخود کھنچنے لگا۔ افوہ! تو یہ کچھ لکھا ہے ان کی رلنے والی کتابوں میں ۔ ایک ایک لفظ پر ان کی تصویر آنکھوں میں کھنچ جاتی اور پل بھر میں وہ غم اور دکھ میں ڈوبی ہوئی مسکرانے کی کوشش کرتی ہوئی آنکھیں وہ اندوہناک سیاہ گھٹاؤں کی طرح مرجھائے ہوئے چہرے پر پڑے ہوئے گھنے بال، وہ پیلی نیلاہٹ لیے ہوئے بلند پیشانی، پژمردہ اودے ہونٹ جن کے اندر قبل از وقت توڑے ہوئے ناہموار دانت اور لاغر سوکھے سوکھے ہاتھ اور عورتوں جیسے نازک، دواؤں میں بسی ہوئی لمبی انگلیوں والے ہاتھ اور پھر ان ہاتھوں پر ورم آگیا تھا۔ پتلی پتلی کھیچی جیسی ٹانگیں جن کے سر پر ورم جیسے سوجے ہوئے بد وضع پیر جن کے دیکھنے کے ڈر کی وجہ سے ہم لوگ ان کے سرہانے ہی کی طرف جایا کرتے تھے اور سوکھے ہوئے پنجرے جیسے سینے پر دھونکنی کا شبہ ہوتا تھا۔ کلیجے پر ہزاروں، کپڑوں، بنیانوں کی تہیں اور اس سینے میں ایسا پھڑکتا ہوا چلبلا دل! یا اللہ یہ شخص کیوں کر ہنستا تھا، معلوم ہوتا تھا کوئی بھوت ہے یا جن جو ہر خدائی طاقت سے کشتی لڑ رہا ہے ، نہیں مانتا مسکرائے جاتا ہے خدا جبار و قہار چڑھ چڑھ کر کھانسی اور دمہ کا عذاب نازل کر رہا ہے اور یہ دل قہقہے نہیں چھوڑتا۔کون سا دنیا و دین کا دکھ تھا جو قدرت نے بچا رکھا تھا مگر پھر بھی نہ رلا سکا۔ اس دکھ میں جلن، ہنستے نہیں ہنساتے رہنا، کسی انسان کا کام نہیں۔ ماموں کہتے تھے: زندہ لاش، خدا یا اگر لاشیں بھی اس قدر جان دار ، بے چیں اور پھڑکنے والی ہوتی ہیں تو پھر دنیا ایک لاش کیوں نہیں بن جاتی۔ میں ایک بہن کی حیثیت سے نہیں ایک عورت بن کر ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی تو دل لرز اٹھتا تھا۔ کس قدر ڈھیٹ تھا ان کا دل۔ اس میں کتنی جان تھی۔ منہ پر گوشت نام کو نہ تھا۔ مگر کچھ دن پہلے چہرے پر ورم آ جانے سے چہرہ خوبصورت ہو گیا تھا۔ کنپٹیاں بھر گئی تھیں۔ پچکے ہوئے گال دبیز ہو گئے تھے۔ ۔ ایک موت کی سی جلا چہرہ پر آئی تھی اور رنگت میں کچھ عجیب طلسمی سبزی سی آ گئی تھی۔ جیسے حنوط کی ہوئی ممی، مگر آنکھیں معلوم ہوتا تھا کسی بچے کی شریر آنکھیں جو ذرا سی بات پر ناچ اٹھتی تھیں اور پھر کبھی ان میں نوجوان لڑکوں کی سی شوخی جاگ اٹھتی تھی اور یہی آنکھیں کبھی دورے کی شدت سے گھبرا کر چیخ اٹھتیں۔ ان کی صاف شفاف نیلی سطح گدلی زرد ہو جاتی اور بے کس ہاتھ لرزنے لگتے۔ سینہ پھٹنے پر آ جاتا۔ دورہ ختم ہوا کہ پھر وہی روشنی، پھر وہی رقص پھر وہی چمک۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول