صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
پاکستان میں بہتی دوستی کی سرسوتی
پریم چند گاندھی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
***
اَگلے دن ہم چل پڑے چولستان کی مشہور بھونگ مسجِد دیکھنے کے لئے۔ یہ کوئی قدیم مسجِد نہیں ہے، بلکہ آزادی کے باعد کی تعمیر ہے۔ لیکن اس کا طرزِ تعمیر اور فنکاری آنکھوں کو موہ لیتی ہے۔ لگ بھگ پچّیس سالوں میں بنی یہ مسجد یہاں کے نواب نے بنوائی تھی۔ اسکے کونے کونے میں طرزِ تعمیر کی عظمت، شوقت اور نفاست دکھائی دیتی ہے۔ سونے، چاندی، ہیرے پنّے کا ایسا باریک اورتعجب خیز کام کہ دیکھنے والے کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔
نوابی
خاندان کی مہمان نوازی پاکر ہم واپس رحیم یار خاں آئے۔ یہاں ایک کالیج میں
چل رہے مینگو شو میں ہمیں بھی بُلایا گیا ہے۔ خوش آمدید اورگل افشانی کے
بیچ آموں کی قسمیں دیکھیں تو خیال آیا کہ ہم اب تک آم کھانے سے مطلب رکھتے
آئے ہیں قسموں کی طرف غور ہی نہیں کیا۔ لب معشوق، سُرخہ، غالِب پسند،
سینسیشن، چوسہ اور نہ جانے کتنی قسمیں۔ ایک چھوٹی سی ناریست میں بتایا گیا
ہے آموں کی پیداوار اوردرآمد میں بھارت پہلے نمبر پر ہے اور پاکستان چھٹے
نمبر پر۔
شاید ہمیں تیس ایک کلومیٹر دور خان پور جانا تھا۔
تاخیر کا سِلسِلہ بدستور جاری تھا۔ کھانا ہوۓ تو پروگرام کا وقت ہو
چکاتھا۔ کوئی دو گھنٹے کی دیری سے ہم چل رہے تھے۔ آگے آگے سکیورٹی اور
پیچھے ہم۔ ایک جگہ پولس وین سائیڈ میں ہوئی اور سیکڑوں لوگوں کی نعرے
لگاتی ڈھول بجاتی بھیڑ ہمارے سامنے تھی۔ ایک بار چونکنے کے بعد یہ جان کر
تسلّی ہوئی ک یہ سب ہمارے سواگت کے لئے آئے ہیں۔ اُترتے ہی دھریجا نگر کے
باشندو ں نے گُلاب کی مالاؤں سے لاد دیا اور دیر تک پھولوں کی بارش ہوتی
رہی۔ ہمیں ایک احاطے میں لے جایا گیا۔ کرسیوں پر بٹھاکر ٹھنڈے کی بوتلیں
پیش کی گئیں۔ ڈھول باجے بج رہے تھے اور نوجوان جھُومر ناچ رہے تھے۔ بالکل
اپنے گھُومر سے ملتا جُلتا رقص۔ سنیتا خود کو دھُن پر تھِرکنے سے نہیں روک
پائیں۔ سیکڑوں دیہاتیوں کے بیچ ایسا شاندار سواگت دیکھ کر آنکھیں بھر
آئیں۔
واپس گاڑی میں سوار ہوکر ہم پاس ہی اَلمنصور گیسٹ
ہاؤس پہنچے۔ یہاں کے بڑے سے لان میں ہزاروں لوگ جمع تھے۔ ایک بار پھر گل
افشانی اور استقبال۔ کیمروں کے فلیش چمک رہے تھے اور ٹی وی کیمروں کی
آنکھیں اس علاقے میں پہلے بھارتی ڈیلیگیشن کا سواگت درج کر رہی تھیں۔ پہلے
پہل ہمیں کھانا کھلایا گیا۔ اور اس کے بعد تین دور ۔ تبادلۂ خیالات،
مُشاعرہ اور شام موسیقی۔ تبادلۂ خیالات کے دور میں میرے علاوہ، اِیش مدھو
تلوار، سنیتا چتُرویدی، ڈاکٹر راج کُمار ملِک اور گووند راکیش نے خان
پورکے عوام کا اس استقبال کے لئے اظہار تشکّر کیا۔ مُشاعرے میں اومیندر
اور فرخ ِنجینیر نے سماں باندھا۔ فرخ کے شعر اور اومیندر کے دوہوں کو بار
بار سراہا گیا۔
ایسے موقعوں پر مقامی قلم کاروں کو قریب سے
دیکھنے کا موقعہ ملتا ہے۔ اس لئے ہم لوگوں نے اپنی شاعری پیش کرنےکے بعد
سرایئی زبان کے نئے شاعروں کو بڑے غور سے سنا۔ یہاں دادورام بالاےعرف
اِشراق اور جہانگیر مُخلص کی شاعری سن کر محسوس ہوا کہ ترقی پسند عوام
پسندی کی روایت اپنی راہ خود نکال لیتی ہے۔ مقامی لوگوں کے دُکھ درد اور
امیروں کے استحصال کو ان نوجوان تخلیق کاروں نے بڑی شدّت سے اپنی تخلیقات
میں اظہار کیا۔ دادو رام ہندو ہیں لیکن اِشراق تخلص سے شاعری کرتے ہیں۔
تیس ایک سال کے دادورام کے ایک رشتے دار جے پور میں مان سروور میں کہیں
رہتے ہیں۔ ان کے گیتوں کو وہاں کے بڑے بڑے مشہُور گایکوں نے آواز دی ہے۔
اَلبتّہ اقلیت میں ہونے کا درد بھی انہیں تکلیف دیتا ہے۔ جہانگیر مخلص بھی
بڑے پائے کے شاعر ہیں۔ انکی ایک کتاب بھی چھپی ہے اور ان کے کلام میں بھی
استحصال کے خلاف احتجاج کی ہُنکار گُونجتی ہے۔
***