صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
دور کنارا
مصحف اقبال توصیفی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
گھاس پہ پاؤں رکھنا
کتنا ا چھّا لگتا ہے
گھاس پہ پاؤں رکھنا
بھورے بادل
ہلکی بارش
اُڑتے اُڑتے ، چڑیوں کا اِک شاخ پہ رُک جانا
کتنا ا چھٓا لگتا ہے
اور اچانک
میرے اندر
اِک طوفانی بارش
تیز ہواؤں کے جھکّڑ چلتے ہیں
بجلی، ٹیلیفون کے کھمبے
اُونچے پیڑ اُکھڑتے ہیں
جب یہ آندھی رُکتی ہے
اور یہ کالے بادل میرے سینے سے ہٹتے ہیں
میں پھر
پاس کے ریستوراں میں بیٹھ کے چائے پیتا ہوں
پھر اُڑتی چڑیوں کو گنتا ہوں
گھاس پہ پاؤں رکھتا ہوں
میں پھر ہنسنے لگتا ہوں...!!
٭٭٭
کچھ بات نہیں کرتے ہم سے
کچھ کھوئے کھوئے رہتے ہو
کچھ بات نہیں کرتے ہم سے
کوئی اپنا رُوٹھ گیا جیسے
کوئی ساتھی جیسے چھوٹ گیا
اِک خواب تھا جو پَو پھٹتے ہی
بالیں سے گرا
اور چَھن سے جیسے ٹوٹ گیا
اب اپنے لہو کی گردش میں
اُس خواب کی چیخیں سنتے ہو
کتنی شامیں بیتیں
تم آج بھی اپنی پلکوں سے
اُس خواب کی کرچیں چُنتے ہو
اب تم کو کیسے سمجھائیں
وہ رات گئی۔ وہ بات گئی
دِن نکلا ہے۔ تمُ سے ملنے
کتنی خوشیاں ، غم آئے ہیں
دیکھو تو سہی۔ ہم آئے ہیں
کچھ بات نہیں کرتے ہم سے!!
***
غزل
سرسبز چمن میرا ، اے بادِ صبا رکھنا
ہر پھول کھِلا رکھنا ، ہر پات ہَرا رکھنا
اِس نیند کی وادی سے میں تو نہ کبھی لوٹوں
شانے پہ مِرے بکھری یہ زلفِ دوتا رکھنا
یہ کب سے نہیں روئیں ، یہ کب سے نہیں سوئیں
ان جاگتی آنکھوں پر تم ہاتھ ذرا رکھنا
یہ نقدِ دِل و جاں ہی بس اپنا اثاثہ ہے
میں دِل کی خبر ر کھّوں ، تم جاں کا پتہ رکھنا
وہ چاند جو تکتا ہے کھڑکی کی سلاخوں سے
دروازے سے آئے گا ، دروازہ کھلا رکھنا
اشعار ہیں مصحفؔ کے اوروں سے الگ جیسے
انداز لگاوٹ کے تم سب سے جدا رکھنا
***