صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


دور اندیشی

امجد مرزا

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

حقوق

ایک سال پہلے کی بات ہے ،والتھم سٹو کی سنٹرل لائبریری کے چوک میں رکھے ہوئے ایک لکڑی کے بینچ پر راجہ صاحب سر جھکائے بیٹھے ہوئے تھے ۔میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا مگر انہیں کچھ خبر نہ ہوئی تو مجھے میرے تجسس نے مجبور کیا اور میں پوچھ بیٹھا ۔کہ’’ راجہ صاحب خیر تو ہے نا۔۔کچھ پریشان سے لگ رہے ہیں ۔‘‘

 یہ ہمارا معاشرہ ہے ہماری تہذیب ہے جو دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی پر اکساتی ہے ۔ورنہ اس ملک میں ایسا پوچھنے پر کھرا سا جواب ملتا ہے ’’مائینڈ یور اون بزنس‘‘ مگر ہم جہاں کسی کے ذاتی معاملات میں مداخلت سے باز نہیں آتے وہاں دوسرا بھی اسے ہمدردی کے بول سمجھ کر مروت سے برداشت کر لیتا ہے ۔اسی مشرقی تہذیب اور رسم و رواج نے ہمیں ہمیشہ ایک محبت کی رسی سے باندھ رکھا تھا جو آج مغربیت کی چھری سے ریزہ ریزہ ہو گئی ہے اور ہم کسی کے دکھ میں نہ سکھ میں شامل ہو کر بیگانے ہو گئے ہیں ۔

 سر جھکائے اور اپنی سوچوں کی دلدل میں غرق راجہ صاحب نے جب سر اٹھایا تو ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھالر نے مجھے پریشان سا کر دیا ۔راجہ صاحب کسی زمانے میں ایک چھوٹے سے شہر میں میرے ساتھ ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے ۔اونچے لمبے قد کے سادہ طبیعت اور نیک خصلت انسان ہیں ۔ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتے ۔چند سال کے بعد راجہ صاحب پاکستان چلے گئے اور پھر دوبارہ آ کر لندن سیٹ ہو گئے ۔جب کچھ مدت بعد حالات مجھے بھی روزگار کے سلسلے میں لندن لے آئے تو ایک بار پھر ان سے ملاقات ہو گئی اور انہوں نے ہی مجھے ایک بڑی اچھی فرم کا پتہ دیا جہاں وہ خود کام کرتے تھے اور میں پھر ایک بار پھر ان کے ساتھ کام کرنے لگا ۔کئی سال کی رفاقت تھی ۔انہوں نے مجھے بڑی محبت سے دیکھا ۔ان کی آنکھوں کے کناروں پر مکڑیاں ٹانگیں پسارے بیٹھی تھیں داڑھی بھی بڑھا لی تھی دو حج کر آئے تھے ۔دن میں دو نمازیں بھی مسجد جا کر پڑھ آتے ۔ایک بار بتایا تھا کہ اسلام آباد میں بہت عالیشان کوٹھی بنائی ہے مگر پھر اسے کرایہ پر اٹھا کر واپس آگیا ہوں کہ بیوی اور بچے وہاں رہنا پسند نہیں کرتے ۔سوچتا ہوں بیچ ڈالوں۔۔

 میری آنکھوں میں سوال دیکھ کر انہوں نے اپنی ہتھیلیوں سے آنکھوں میں چمکتے آنسوؤں کو صاف کیا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولے ۔

 ’’مرزا صاحب ! بہت اچھا اور لمبا وقت آپ کے ساتھ گذارا ہے ۔بہت دولت کمائی اور بہت کچھ بنایا ہے ۔یہاں دو مکان ہیں ،پاکستان کی کوٹھی کی قیمت پچاس لاکھ سے اوپر پڑی ہے ۔سوچتا ہوں بیچ دوں ۔۔ایک بیٹے کی شادی اپنے غریب بھائی کی بیٹی کے ساتھ کرائی سوچا تھا غریب کی بیٹی ہے اور اپنا خون بھی ہمارا بھی کچھ خیال رکھے گی مگر اس بھتیجی نے آتے ہی ایسا فساد ڈالا کہ مجھے میرے بیٹے سے بھی جدا کر دیا ۔مجھ سے صرف چار میل رہتا ہے مگر سات ماہ پہلے عید پر اپنی بیوی اور بچی کے ساتھ آیا ۔آدھ گھنٹہ بیٹھا اور چلا گیا ۔دوسرا بیٹا میرے ساتھ رہتا ہے۔۔مگر افسوس کہ اسے کچھ برے دوستوں نے نشے کی عادت ڈال دی ہے ۔کبھی مجھ سے اور کبھی اپنی ماں سے پیسے چھین کے لے جاتا ہے ۔دو دو دن گھر نہیں آتا ۔کہتا ہے جب گھر آؤں تم واعظ شروع کر دیتے ہو ۔۔یہ نہ کرو وہ نہ کرو ۔۔۔‘‘

 میں نے کہا ۔’’راجہ صاحب ! یہ بات تو سچ ہے کہ یہاں کی اولاد ہماری ہر بات کو نصیحت اور وعظ ہی سمجھتی ہے ۔اور اپنی مرضی کے خلاف کوئی بات سننے کی رودار نہیں ہے ۔ چاہے وہ ان کے بھلے کی کیوں نہ ہو مگر اب وہ جوان ہیں ۔۔انہیں خود سے جینے دیں اور اپنے بڑھاپے کو اس طرح آزمائشوں میں مت ڈالیں۔‘‘

 تو کہنے لگے ۔

 ’’نہیں جناب ! بات اس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے ۔۔۔آج صبح جب ڈاک آئی تو میں نے اس کا ایک خط غلطی سے کھول لیا ۔کیونکہ ہمارا سر نیم راجہ ایک ہی ہے وہ بھی اے راجہ اور میں بھی اے راجہ ہوں ۔۔ مجھے جب اس غلطی کا احساس ہوا تو میں نے وہ خط اسی طرح لفافے میں ڈال کر رکھ دیا اور اس کی ماں کو بھی اپنی اس غلطی کا اعتراف کیا ۔ جب تھوڑی دیر بعد وہ نیچے آیا تو مجھ پر آن سوار ہوا کہ اس خط میں میرے بیس پونڈ بھی تھے جو تم نے نکال لئے ہیں۔میں نے ہنس کے کہا کہ بھلا یہاں کس محکمے نے تمہیں بیس پونڈ کا نوٹ لفافے میں ڈال کر بھیجنا تھا ۔۔۔تو اس نے مجھے ۔۔۔۔‘‘

 یہ کہہ کر وہ ضبط نہ کر سکے اور رو پڑے۔۔آنسو تو میری پلکوں پر بھی مچل رہے تھے مگر میں ان کے لئے ضبط کر رہا تھا ۔۔

 پھر تھوڑی دیر تک ہمارے دل کا خون آنسو بن کر آنکھوں سے بہتا رہا ۔ جن بچوں کے لئے ہم نے اپنی جوانی کو فیکٹریوں کی مشینوں کے سینے میں دفن کیا اور اپنا دیس چھوڑ کے اس بیگانے دیس میں گوروں سے گالیاں کھائیں اور رسوائیاں جھیلیں نہ رات کو رات دیکھا نہ دن کو دن ۔اپنی خواہشات اپنے خوابوں کا گلا medications without a prescription گھونٹ کر ان بچوں کی بہبود کے لئے قربانیاں دیں۔۔مگر اسی اولاد نے جوان ہو کر اپنے ان والدین کو اس موڑ پر لا کھڑا کیا جہاں صرف آنسو اور آہیں ہیں ۔۔۔انہوں نے ایک لمبی سانس لی اور ٹھنڈی آ ہ بھر کر اپنی بات کو مکمل کیا

 ’’مرزا جی ! آج میرے اس چھوٹے بیٹے نے جس کے لئے میں نے پاکستان میں لاکھوں روپوں کی ایک عالی شان کوٹھی بنوائی تھی کہ وہ میری طرح یہاں مزدوری نہ کرے ۔گوروں اور کالوں سے رسوا نہ ہو ۔۔پاکی کہلوا کر اپنی انا کا خون نہ کرے اور وہاں عزت کی زندگی جیئے ۔۔مگر افسوس اسے وہ عزت راس نہ آئی ۔۔ وہ یہاں چلا آیا ۔۔اور میں اپنی پدری محبت سے مجبور اس کی یاد میں تڑپتا ہوا پھر یہاں آ بسا ۔۔۔مگر آج اس نے ایک عام خط کا بہانہ بنا کر مجھے دھکا دیا ۔ اپنے نشے کی تسکین کے لئے بیس پونڈ کی جھوٹی چوری کا الزام لگا کر مجھے گالی دی ۔میں صوفے پہ جا گرا اور آنکھیں نکال کر مجھے ایف ایف کی گالی دے کر کہا۔۔کہ تم کیوں میرے پیچھے پیچھے یہاں چلے آئے ہو ۔۔۔کیوں نہیں اپنے ملک جا کر مرتے ۔۔۔تاکہ ہم بھی کچھ دن آرام سے یہاں جی سکیں۔‘‘

 وہ یہ کہہ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔۔اور جب تھوڑی دیر کے بعد آنکھوں کا زہر خارج ہو  تھے جو تم نے نکا : اعجاز عبید عبید سکتا ہوں کہ اتنے عرصے محفل میں آتے رہے اور نہ کتاب کا ذکر کیا اور نہ برقی کتابوں میں شامل کرگیا تو ایک سسکی بھری ۔۔اور مجھے پوچھا ۔

 ’’مرزا جی ! آپ میرے پرانے ساتھی ہو مجھے ایک مشورہ دو ۔۔۔میں اب کیا کروں۔۔میرا گھر جانے کو دل نہیں کرتا ۔۔میری بیوی بھی مجھے موردِ الزام ٹھہراتی ہے کہ میں نے اسے اپنی نصیحتوں سے باغی کر دیا ہے ۔وہ بھی کم بخت اسی کا ساتھ دیتی ہے ۔۔‘‘

 میں نے چند لمحے سوچا ۔۔۔اور پھر جو الفاظ میرے منہ سے نکلے ان پر میری قدرت نہ تھی ۔

 ’’سب کچھ چھوڑ کر واپس چلے جاؤ ۔۔۔آپ کا یہاں کوئی نہیں رہا ۔۔۔اپنی اس کوٹھی کو بیچ کر کسی رفاہی ادارے کے نام کر دو تاکہ جب خدا کے پاس جاؤ تو کچھ تو آپ کے پاس اپنا ہو ۔۔۔ایسی نا خلف اولاد کو اپنی تمام عمر کی کمائی دے جاؤ گے تو وہ ہیروئن کی پڑیا میں گنوا دے گی اور خدا کے ہاں اس پر بھی آپ کی پکڑ ہو گی ۔۔۔ آگے آپ کی مرضی!‘‘

 راجہ صاحب مجھے بہت دن نظر نہ آئے تو میں نے ان کی گلی میں رہنے والے ایک آدمی سے پوچھا تو وہ حیران ہو کے بولے ۔

 ’’ارے آپ کو نہیں معلوم ۔۔یار وہ تو بڑا عجیب انسان نکلا ۔ ایک دن چپ کر کے پاکستان چلا گیا ۔اور اپنی اسلام آباد والی عالی شان کوٹھی کو ساٹھ لاکھ میں بیچ کر ساری رقم ایدھی سینٹر یتیم خانوں اور مسجد مدرسوں میں تقسیم کر دی ۔۔اور جب اپنے گاؤں گیا تو دوسرے دن دل فیل ہو جانے سے فوت ہو گیا ۔۔‘‘

 میں نے پوچھا کہ اس کے بیٹے اور بیوی کیا یہیں ہیں یا وہ بھی اس کی موت پر پاکستان گئے ہوئے ہیں۔تو اس کی آواز میں غصہ در آیا اور وہ نوک بھوں چڑھا کر بولا۔

 ’’حد ہے جی ! ایسے آدمی کے لئے اسکے بیٹے اور بیوی کیوں افسوس کریں جو لاکھوں کی جائیداد بیچ کر پرائے لوگوں میں بانٹ دے اور صحیح حقداروں کو ان کے حقوق سے محروم کر جائے ۔۔‘‘

 ’’کیا نیک اور خوش بخت انسان تھے۔‘‘

 میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔۔اللہ مغفرت کرے۔۔اور عقیدت کے جذبے سے بیخود ہو کر میری آنکھوں سے دو موتی گرے۔۔اور زمین میں جذب ہو گئے۔۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول