صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


دو اسلام

ڈاکٹر غلام جیلانی برق


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل     

حدیث میں تحریف

جب پہاڑ کے دامن سے کوئی چشمہ پھوٹتا ہے تو  اس کا پانی صاف شفاف ہوتا ہے۔ لیکن جوں جوں وہ میدانوں کی طرف  پڑھتا ہے ، خس و خاشاک اور  خاک و غبار کی کی وجہ سے گدلا ہو جاتا ہے۔ یہی حال مذہب کا ہے۔ آج سے 1368 برس پہلے اسلام کا چشمہ دامن فاران سے پھوٹا اور کئی دھاروں میں بٹ کر  مشرق و مغرب کی طرف بڑھا۔ مررورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اس میں مختلف الانواع کثافتیں شامل ہوتی گئیں۔ کہیں عیسائیوں کی رہبانیت  اس میں آملی اور کہیں آریوں کا نظریہ حلول و وحدت الوجود، راہ میں کئی تصوف کی دلدلیں آ گئیں اور کہیں کلام و اعتزال کے خاکستان۔ ان مختلف گزر گاہوں سے ہوتا  اور اس طویل راہ گرد کی آلودگیوں کو سمیٹتا ہوا  جب یہ چشمہ ہم تک پہنچا  تو ہم فیصلہ نہ کر سکے کہ یہ الہامی بلندیوں کا مقطر آب تھا   یا کسی بدرو کا مکدر پانی۔ اہل نظر لرزے ، اور متلاشیان حق بے تابانہ منبع کی طرف بڑھے۔ تاکہ ان مقامات کا کھوج لگائیں۔ جہاں سے کثافت اس چشمے میں شامل ہو رہی تھی ، سفر لمبا تھا  منزل کٹھن ، راہبر ناپید، خانہ ساز عقائد کی گھٹائیں محیط اور راہ تاریک ماحول میں گُم۔

 ظلمات بعضھا فوق بعض     (ظلمت تہ بر تہ)

بیسیوں جی ہار کر بیٹھ گئے اور کچھ ان ستاروں کی مدھم روشنی میں آگے بڑھتے گئے جو گھٹاؤں کی چلمن سے ان راہ نوردوں کا تماشہ دیکھ رہے۔ جوں جوں وہ بڑھتے گئے۔ گھٹائیں چھٹتی گئیں، ظلمت سرکتی گئی۔ پردے اٹھتے گئے۔ یہاں تک کہ وہ ایسے خطوں میں جا پہنچے جہاں آفتاب الہام کی تجلیوں سے نگاہیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں اور دل و دماغ منور۔ ہر حقیقت وہاں عیاں تھی اور ہر راز بے حجاب ، انھوں نے ملت کو بلند آواز سے پکارا اور کچھ کہا۔ یہ آواز چند کانوں سے ٹکرائی اور پھر گونج بن کر دشت کی پنہائیوں میں گم ہو گئی۔

جانتے ہو انھوں نے کیا کہا تھا ؟یہی کہ ہمارے شکم پرست  اور خود بین سامریوں نے حرم حقیقت میں سینکڑوں بت بنا رکھے ہیں۔ جن میں ایک کا نام "وضعی احادیث" ہے۔ یعنی وہ اقوال جو لوگوں نے تراش کر حضورؐ کی طرف منسوب  کر دئیے تھے اور آج وہ اقوال رسولؐ کے ساتھ یوں غلط ملط ہو چکے ہیں کہ حق کو باطل سے علیحدہ کرنا ناممکن ہو رہا ہے۔

اس میں کلام نہیں کہ ہمارے بعض علماء نے سچ کو جھوٹ سے علیحدہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ راویوں کا سراغ لگایا، ان کے حالات جمع کئے بہ اندازہ ہمت تحقیق کی۔ لیکن معاملہ اس قدر الجھ چکا تھا کہ اسے سلجھانا انسانی دسترس سے باہر تھا۔ وہ زمانہ ہی ایسا تھا کہ علم کم تھا ، لکھنے والے محدود اور ذخائر علم معدوم۔ صحابہ کی تمام تر توجہ قیام سلطنت ، نشر اسلام اور  تعمیر ملت پر صرف ہو رہی تھی۔ ان کے پاس خود رسولؐ موجود تھے اور رسولؐ کے بعد آپ کا دیا ہوا مکمل و اتم ضابطہ حیات یعنی قرآن۔

انھیں کیا خبر تھی کہ ڈیڑھ سو سال بعد  لوگ قرآن کو چھوڑ کر احادیث پہ جھک پڑیں گے۔ احادیث کا ذخیرہ بڑھتے بڑھتے چودہ لاکھ تک پہنچ جائے گا۔ ہزارہا اہل غرض لاکھوں احادیث گھڑ کر اس مقدس ذخیرے میں شامل کر دیں گے اور اس وقت مسلمانوں کو صحیح و غلط میں امتیاز کی ضرورت پیش آئے گی۔ اگر انھیں یہ معلوم ہوتا  تو ممکن تھا کہ وہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال جمع کر جاتے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہ کیا۔ اس کی بڑی بڑی وجوہ دو تھیں۔

اول: وہ قرآن کی موجودگی میں کسی اور کتاب کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے تھے۔ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ جب رحلت سے پہلے حضور نے فرمایا کہ

ایتونی بکتاب و قرطاس اکتب لکم شیاءً لن نضلوا بعدی

لاؤ قلم دوات اور کاغذ میں تمھیں ایک ایسی چیز لکھ کر دے جاؤں کہ میرے بعد تمھاری گمراہی کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔

تو حضرت عمر ؓ بن خطاب جھٹ بول اٹھے ہمیں مزید کسی تحریر کی ضرورت نہیں ، اس لئے کہ

حسبنا کتاب اللہ

ہمارے پاس کتاب الٰہی  موجود ہے جس میں انسانی فلاح و نجات کے مکمل گُر درج ہیں ، اور یہ کتاب ہمارے لئے کافی ہے ۔ حضرت فاروق کا یہ جملہ رسالت پناہ کے حضور میں جسارت معلوم ہوتا ہے۔ لیکن وہ مجبور تھے اس لئے کہ کچھ عرصہ پیشتر  قرآن کی یہ آیت نازل ہو چکی تھی

الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی

آج میں نے تمھارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تمھیں پوری طرح عطا کر دی ہے۔

اس آیت کی رو سے نسل انسانی کی یہ کتاب ہر طرح مکمل اور پوری ہو چکی تھی۔ اس آیت کے ہوتے ہوئے کسی مزید ہدایت کا انتظار بےکار تھا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ایمان کا امتحان لے رہے ہوں۔ اس لئے حضرت فاروقؓ کا یہ جواب نہایت برمحل معلوم ہوتا ہے۔

دوم: حضور نے حدیث لکھنے سے روک دیا تھا۔

عن ابی سعید الحذری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تکتبوا عنی و من کتب عنی شیئاً غیر القرآن فلیمحہ (صحیح مسلم)

ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن کے بغیر میرا کوئی اور قول قلمبند نہ کرو۔ اور اگر کوئی شخص ایسا قول لکھ چکا ہو تو  اسے مٹا دے۔اور اس کی دو وجہیں تھیں۔

اول: کہ کہیں غلطی سے احادیث قرآن کے متن میں شامل نہ ہو جائیں۔ بعض گذشتہ انبیا کے الہامی صحائف  میں ان کی احادیث بھی شامل ہو گئی تھیں اور کتاب الٰہی  کا حلیہ بگڑ گیا تھا۔

 دوم: خود رسول کریم صلعم کی زندگی  میں ان کے اقوال محترف ہو چکے تھے اور یہ ہے بھی ایک فطری چیز۔ آدمی کو اپنی کہی ہوئی بات  تک یاد نہیں رہتی ، وہ دوسرے کی کیا یاد رکھ سکتا ہے۔ فرض کرو کہ ایک محفل میں چھ آدمی گھنٹہ بھر گفتگو کرتے رہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اختتام مجلس پر تمام گفتگو بالفاظہ دہرا سکیں ؟ نا ممکن ہے۔ اسی طرح فرض کرو کہ ایک واقعے کو پچاس آدمی دیکھتے ہیں۔ اگر آپ ان کے پاس علیحدہ علیحدہ جا کر اس واقعے کی تفصیل قلمبند کریں، تو  آپ کو ان تفاصیل میں کافی اختلاف  نظر آئیں گے۔ اور اگر  چھ ماہ یا سال بعد  انھی لوگوں کے پاس  جا کر اسی واقعے کی تفصیل دوبارہ قلمبند کریں تو یہ اختلاف اور نمایاں ہو گا۔ اور مرُور زمانہ کے ساتھ ساتھ یہ تفاصیل یوں بدلتی جائیں گی کہ ان کا تعلق حقیقت سے منقطع ہو جائے گا۔

حضور علیہ السلام انسان کی اس فطری کمزوری سے آگاہ تھے۔ اس لئے آپ نے حکم دے دیا تھا کہ میری حدیث قید کتابت میں مت لاؤ۔ ممکن ہے کہ آپ یہ کہیں کہ انسان اپنے یا اپنے ساتھی کی بات تو بھول سکتا ہے لیکن وہ اپنے رہبر اور محبوب پیمبر کی بات نہیں بھول سکتا۔ میں عرض کروں گا کہ آپ یہاں بھی غلطی پر ہیں۔ آپ میں سے لاکھوں نے اپنے محبوب و محترم  لیڈر حضرت قائد اعظمؒ کی بیسیوں تقاریر سنی ہوں گی۔ جنھیں بعد میں پاکستان ریڈیو نے بھی بارہا دہرایا۔ لیکن آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جنھیں آج ان تقاریر کے تین فقرے بھی یاد ہوں۔ انسان ہے ہی فراموش کا ر ، وہ سنتا ہے اور بھول جاتا ہے۔ آپ کو تاریخ کا ایک اہم واقعہ یاد ہو گا کہ حضرت فاروقؓ کے زمانے میں عراق کا  قرآن حجاز سے مختلف ہو گیا تھا۔ کیوں ؟ اس لئے نہیں کہ کوئی بد نیت تحریف قرآن پہ تل  گیا تھا۔ بلکہ اس لئے کہ ان کے سامنے قرآن کا کوئی نسخہ موجود نہیں تھا۔ اس لئے بعض آیات حافظہ سے اتر گئیں۔ اور بعض میں کچھ رد و بدل ہو گیا تھا۔ حضرت فاروقؓ نے اس کا علاج یہ کیا کہ قرآن کے کافی نسخے لکھوا کر قلمرو کے مختلف حصوں میں بھیج دئیے اور قرآن تحریف سے محفوظ ہو گیا۔ ابن حزم لکھتے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم کی رحلت کے وقت  قرآن شریف کے ایک لاکھ نسخے تیار ہو چکے تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ صحابہ کرام عشق خدا میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اور ان کا یہ محکم عقیدہ تھا کہ کسی آیت کو غلط پڑھنا اگر کفر نہیں تو فسق یقیناً ہے۔ اگر ان عشاقان خدا کو قرآن کی آیات بھول گئیں تھیں تو حدیث کے بھولنے پہ انھیں کون ملامت کر سکتا تھا۔

آنحضرت صلعم نے کتاب حدیث سے منع فرما دیا تھا۔ اور جو چیز لکھی نہ جائے وہ لازماً پہلے بگڑتی ہے اور بلا آخر مٹ جاتی ہے۔ حضورؐ کا مقصد بھی یہی تھا کہ قرآن کریم کے بغیر کوئی اور کتاب ہدایت باقی نہ رہے۔ اس لئے حضورؐ اور ان کے صحابہؓ قرآن کو ایک مکمل ضابطہ حیات تصور فرماتے تھے۔ اور اس کی موجودگی میں کسی اور کتاب کی قطعاً ضرورت نہیں سمجھتے تھے۔ورنہ اگر صحابہ کو ایک لمحے کے لئے بھی یہ خیال آتا کہ قرآن کی تفصیل، تکمیل، تفسیر یا امت کی رہبری کے لئے حدیث کا زندہ رہنا ضروری ہے تو ان کے لئے حدیث کی تدوین نہایت آسان تھی۔ جو عمرؓ قرآن کے ایک لاکھ نسخے لکھوا سکتا تھا وہ پانچ چھ ہزار احادیث کا  ایک مجموعہ بھی تیار کرا سکتا تھا۔ تمام صحابہ زندہ تھے ان کی بیشتر تعداد مدینہ میں موجود تھی۔ اور بعض روایات کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمروؓ حضرت انس بن مالکؓ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاس احادیث کی کافی تعداد لکھی ہوئی بھی تھی۔ راویوں کا لمبا چوڑا جھمیلا بھی نہیں تھا۔ ان حالات میں اگر حضرت صدیقؓ یا فاروقؓ چاہتے تو صرف ایک مہینے میں سرور عالمؐ کے تمام اقوال جمع ہو سکتے تھے۔

لیکن انھوں نے ایسا نہ کیا۔ کیوں ؟ کیا انھیں اقوال رسولؓ سے معاندت تھی؟ عیاذاً باللہ!  کیا انھیں اسلام سے محبت نہ تھی ؟ استغفراللہ ! بات یہی تھی کہ اقوال رسول میں تحریف ہو چکی تھی۔ نیز رسول اکرم صلعم کا حکم تھا کہ احادیث مت لکھو۔  مزید برآں  انھیں اس حقیقت پر بھی محکم ایمان تھا کہ قرآن ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ اس لئے انھوں نے احادیث کو در خور اعتنا نہ سمجھا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل     

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول