صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
کچھ دینی مضامین
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
کرب و بلا کے صحیح واقعات(اقتباس)
ابنِ زیاد کوفے میں اور افشائے راز
اس حکم کی بنا پر عبید اللہ بصرہ کے چند سرکردہ لوگوں کے ہمراہ اس حالت میں کوفہ پہنچا کہ اس نے ڈھانٹا باندھ رکھا تھا تاکہ اسے کوئی پہچان نہ سکے وہ اہلِ کوفہ کی جس مجلس سے گزرتا اس پر سلام کہتا اور وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سمجھ کر وعلیک السلام یا ابن رسول اللہ (اے رسول اللہ ﷺ کے بیٹے آپ پر بھی سلام) سے جواب دیتے اسی طرح سلام کہتا اور جواب لیتا ہوا وہ قصرِ امارت میں پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنے ایک غلام کو تین ہزار درہم دئیے اور کہا تم جا کر اس شخص کا پتہ لگاؤ جو کوفے والوں سے بیعت لیتا ہے لیکن دیکھو تم خود کو ’’حمص‘‘ کا باشندہ ظاہر کرنا اور یہ کہنا کہ میں بیعت کرنے کے لئے آیا ہوں اور یہ رقم بھی پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ اپنے مشن کی تکمیل میں اس کو صرف کریں چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور بہ لطائف الحیل اس شخص تک اس کی رسائی ہو گئی جو بیعت لینے کا اہتمام کرتا تھا اور اس نے اپنے آنے کی اور امدادی رقم پیش کرنے کی سب بات کہہ ڈالی۔ اس نے کہا مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ تمہیں ہدایت کا راستہ نصیب ہوا لیکن یہ محسوس کر کے دکھ بھی ہو رہا ہے کہ ہماری سکیم ابھی پختہ نہیں ہوئی تاہم وہ اس غلام کو حضرت مسلم بن عقیل رحمہ اللہ کے ہاں لے گیا۔ حضرت مسلم رحمہ اللہ نے اس سے بیعت بھی لے لی اور رقم بھی اس سے قبول کر لی۔ اب وہ یہاں سے نکلا اور عبید اللہ بن زیاد کے پاس سیدھا پہنچا اور سب کچھ اس کو بتلا دیا۔ادھر حضرت مسلم رحمہ اللہ عبید اللہ کی کوفہ میں آمد کے بعد عوسجہ کا گھر چھوڑ کر ہانی بن عروہ مرادی کے مکان پر فروکش ہوئے اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھ بھیجا کہ بارہ (۱۲) ہزار کی تعداد میں ہماری لوگوں نے بیعت کر لی ہے آپ کوفہ تشریف لے آئیں ۔اور یہاں یہ ہوا کہ جب عبید اللہ کو پتہ چل گیا کہ مسلم رحمہ اللہ ہانی کے مکان پر ہیں ، تو اس نے کوفے کے سرکردہ لوگوں سے کہا کہ کیا بات ہے ہانی میرے پاس نہیں آئے ؟ اس پر حاضرین سے ایک شخص محمد بن اشعث چند ہمراہیوں کے ساتھ ہانی کے ہاں گئے تو وہ اپنے دروازے پر موجود تھے۔ اشعث نے کہا کہ گورنر صاحب آپ کو یاد فرماتے ہیں اور آپ کے اب تک نہ حاضر ہونے کو بہت محسوس کرتے ہیں لہذا آپ کو چلنا چاہیے چنانچہ ان کے زور دینے پر ہانی ان کے ساتھ ہولیے اور وہ عبید اللہ کے پاس پہنچے اور اتفاق سے اس وقت قاضی شریح بھی ابن زیادہ کے پاس موجود تھے۔ ان سے مخاطب ہو کر اس نے کہا دیکھو ہانی کی چال کھوٹ کی مظہر ہے پھر اتنے میں وہ اس کے پاس آ گیا تو کہا ہانی مسلم بن عقیل رحمہ اللہ کہاں ہیں ؟ اس نے کہا مجھے علم نہیں اس پر عبید اللہ نے تین ہزار روپے والے غلام کو اس کے سامنے کر دیا۔ ہانی بالکل لاجواب ہو گئے البتہ اتنا کہا میں نے انہیں اپنے گھر بلایا نہیں وہ خودبخود میرے گھر آ کر ٹھہر گئے ہیں ۔ ابن زیاد نے کہا اچھا ان کو حاضر کرو۔ اس پر پس و پیش کیا تو ابن زیاد نے اپنے قریب بلوا کر اس کے زور سے چھڑی ماری جس سے ان کی بھویں پھٹ گئیں اس پر ہانی نے اس کے ایک محافظ سپاہی سے تلوار چھین کر عبید اللہ پر وار کرنا چاہا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ اس پر ابن زیاد نے یہ کہہ کر اب تمہارا خون حلال ہے۔ قصرِ امارت کے ایک حصے میں اس کوقید میں ڈال دیا۔
اس واقعے کی اطلاع ہانی کے قبیلے مذحج کو ہوئی تو انہوں نے قصرِ امارت پر یلغار بول دی ۔ عبید اللہ نے شور سنا اور پوچھا تو کہا گیا ہانی کا قبیلہ ان کو چھڑانے کے لئے چڑھ آیا ہے اس نے قاضی شریح کے ذریعے ان کو کہلایا کہ ہانی کو مسلم بن عقیل کا پتہ کرنے اور بعض باتوں کی تحقیق کے لیے روک لیا گیا ہے۔ خطرے کی کوئی بات نہیں لیکن ساتھ ہی قاضی شریح پر بھی ایک غلام کو لگا دیا یہ معلوم کرنے کے لئے کہ وہ لوگوں سے کیا کہتے ہیں قاضی شریح لوگوں کی طرف جاتے ہوئے ہانی کے پاس سے گزرے تو اس نے قاضی صاحب سے کہا کہ میرے بارے میں اللہ سے ڈرنا ابن زیاد میرے قتل کے درپے ہے تاہم قاضی شریح نے ہجوم کو ابن زیاد والی بات کہہ کر مطمئن کر دیا اور لوگ بھی یہ سمجھ کر مطمئن ہو گئے کہ ہانی کو کوئی خطرہ نہیں ۔
حضرت مسلم رحمہ اللہ کو جب ہنگامے کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے اپنے ذرائع ابلاغ سے کوفہ میں اعلان کرا دیا۔ جس کے نتیجہ میں چالیس ہزار لوگ ان کے پاس جمع ہو گئے جس کو انہوں نے باقاعدہ ایک فوجی دستہ کی شکل دے دی جس کا مقدمۃ الجیش میمنہ اور میسرہ وغیرہ سبھی کچھ تھا۔ خود حضرت مسلم رحمہ اللہ اس کے قلب میں ہو گئے اس طرح چالیس ہزار کا یہ لشکرِ جرار قصرِ امارت کی طرف روانہ ہو گیا۔ عبید اللہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے اعیانِ کوفہ کو اپنے قصر میں بلایا جب یہ لشکر قصر امارت تک پہنچ گیا تو سردارانِ کوفہ نے اپنے اپنے قبیلے کو دیواروں کے اوپر سے گفتگو کر کے سمجھانا شروع کیا اب تو مسلم رحمہ اللہ کی فوج کے آدمی کھسکنے شروع ہوئے اور ہوتے ہوتے شام تک صرف پانچ سو رہ گئے حتی کہ رات کے اندھیرے تک وہ بھی اوجھل ہو گئے۔ جب مسلم رحمہ اللہ نے دیکھا کہ وہ تنہا رہ گئے ہیں تو وہ بھی وہاں سے چل پڑے راستہ میں ایک مکان کے دروازہ پر پہنچے تو ایک خاتون اندر سے آپ کی طرف نکلی تو آپ نے اس کو پانی پلانے کے لئے کہا تو اس نے پانی تو پلا دیا لیکن اندر واپس چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر باہر آئی تو آپ کو دروازے پر دیکھ کر اس نے کہا اے اللہ کے بندے! آپ کا اس طرح بیٹھنا مشکوک ہے یہاں سے چلے جائیں ۔ آپ نے کہا : میں مسلم بن عقیل ہوں کیا تم مجھے پناہ دو گی؟ اس نے کہا ہاں آ جائیے آپ اندر چلے گئے۔ لیکن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اس عورت کا لڑکا محمد بن اشعث کا آزاد کردہ غلام تھا جب اس کو پتہ چلا کہ یہ مسلم بن عقیل ہیں تو اس نے محمد بن اشعث مذکور کو اطلاع دے دی جس نے فوراً عبید اللہ تک خبر پہنچائی جس نے اس کے ہمراہ پولیس روانہ کر دی اور ان کو مسلم رحمہ اللہ کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ پولیس نے جا کر مکان کا محاصرہ کر لیا جبکہ مسلم کو خبر تک نہ ہوسکی تھی۔ اب خود کو انہوں نے محصور پایا تو تلوار سونت کر نکل آئے اور پولیس سے مقابلہ کی ٹھان لی۔ لیکن ابن اشعث نے ان کو روک کر کہا کہ میں ذمہ دار ہوں آپ محفوظ رہیں گے۔ پس وہ مسلم کو ابن زیاد کے پاس پکڑ کر لے گئے۔ چنانچہ ابن زیاد کے حکم سے قصرِ امارت کی چھت پر لے جا کر مسلم رحمہ اللہ کو قتل کر دیا گیا۔ (إنا للہ وإنا إلیہ راجعون)
اور ان کی لاش بازار میں لوگوں کے سامنے پھینک دی گئی نیز اس کے حکم سے ہانی کو کوڑے کرکٹ کی جگہ تک گھسیٹتے ہوئے لے جا کر سولی دے دی گئی ادھر تو کوفہ میں یہ تک ہو گیا تھا اور۔۔۔۔
٭٭٭