صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
دل سے دار تک
فریدہ زین
کہانیوں کا مجموعہ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
لہو کے رنگ
اس نئے گھر میں آئے اسے صرف چار ہی دن ہوئے تھے، وہ کمروں نکی آراستگی میں مصروف تھی۔ آفاق نے کمپنی سے مکان کی تلاش کے لئے باقاعدہ چھٹی لے رکھی تھی،پندرہ دن کی انتھک کوششوں کے بعد مسز خان کو یہ مکان مل سکا تھا۔ ویسے جو مکان اس کمپنی سے الاٹ ہوا تھا وہ شہر سے دور تھا۔ یہاں خاموشی اور سناٹے کا راج تھا، دور دور تک پھیلی ہوئی خاموشی انجم کی زندگی کے راز کھول رہی تھی۔
اس کی اپنی زندگی بھی تو ایسی ہی ویران تھی، جیسے کوئی بنجر دھرتی، جیسے کوئی خالی کنواں، جیسے کوئی سوکھا درخت، گھر کاکونہ کونہ وہ سلیقے سے آراستہ کرتی مگر اسے محسوس ہوتا جیسے کچھ کمی سی رہ گئی ہو، جیسے باغ ہو بہار نہ ہو، پھول ہو خوشبو نہ ہو، پیمانہ ہو بادہ نہ ہو، آنکھ ہو کاجل نہ ہو، دل ہو دھڑکن نہ ہو، چشم ہو نور نہ ہو، جسم ہو جان نہ ہو۔ کتنا اکیلا محسوس کرتی وہ خود کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاکھ مصروفیت سہی دکھ تو دبے پاؤں کہیں نہ کہیں سے چلا ہی آتا ہے کہ رقص کرتی زندگی کو ساکت کر دے۔ وہ بظاہر خوش رہتی مگر دل کے نہاں خانے میں غم کا الاؤ ہمیشہ سلگتا ہی رہتا۔
آفاق نے بڑی کوشش کی کہ وہ زندگی کی اس محرومی کو محسوس نہ کرے، زخم کو ناسور نہ بنا لے مگر وہ ناکام رہا، اس وارفتگی میں کوئی کمی نہ آئی اس کا دیوانہ پن باقی رہا۔ تنہائی میں وہ سپنے دیکھتی۔ بادلوں کے پار سے وہ گول مٹول ننھے کو اترتا دیکھتی اسے پالنے میں جھلاتی لوریاں گاتی۔ جب وہ پاؤں پاؤں چلنے لگتا تو اس کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی، ایسے ہی موقع پر آفاق چلا آتا۔ اس کی یہ وارفتگی دیکھتا تو مایوسی کے گھپ اندھیرے میں ڈوب جاتا۔ اس کا بس چلتا تو انجم کی یہ خوشی وہ کہیں سے ادھار لے لیتا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر کار مز خان کا یہ فلیٹ اسی لئے لیا کہ انجم یہاں بہلی رہے۔ آج آفاق کے جانے کے بعد جب انجم کمرے کی صفائی کر رہی تھی تو ایک کوئل کی کوک فضا میں گونج اٹھی۔
"آنٹی۔۔ آنٹی " اس نے مڑ کر دیکھا تو دروازے میں چار سال کے ایک بےحد معصوم چہرے والی پیاری سی لڑکی کھڑی تھی۔
" آنٹی ہم اندر آئیں۔" اس نے پھر ساز بجایا۔
"آؤ آؤ" انجم خواب سے بیدار ہوئی۔
"آپ ہماری نئی آنٹی ہیں نا ! " اس نے اپنی آنکھیں گھما کر پوچھا۔
" ہاں ہاں، لیکن تمہیں کس نے بتایا۔" انجم نے سوال کیا۔
" ان کمروں میں جو بھی آتا ہے ہم انہیں آنٹی اور انکل ہی* کہتے ہیں۔ آپ نہیں جانتیں میں جوہی ہوں، نیچے ہی تو میرا گھر ہے۔" اس نے اپنا تعارف کروایا۔
" جوہی۔۔!! اچھا تو اسی لئے مہکتی پھرتی ہو۔ " انجم نے پوچھا۔
" لیکن ممی تو کہتی ہے میں سب کو تنگ کرتی ہوں، دیکھئے میں تو آپ سے ملنے چلی آئی۔"
" بہت اچھا کیا، بڑی پیاری باتیں کرتی ہو تم تو۔۔۔۔" انجم نے اس کے گال پر چٹکی بھرتے ہوئے کہا۔
" آپ کو میری باتیں اچھی لگتی ہیں * تو میں آپ سے بار بار باتیں کرتی رہوں گی۔ اور پھر یہ سلسلہ چل پڑا۔ وہ پہروں باتیں کرتی اور انجم چپ چاپ سنتی رہتی۔ چاہت یہ رنگ دن بدن نکھرتا گیا۔ انجم کے دل کی دھڑکن جوئی کے لئے وقف ہو گئی۔ اور جوہی کا پیار انجم کے حصے میں آیا۔ مسز خان کی جوہی اب رات دن انجم کی بانہوں میں جھولنے لگی۔
آفاق کو سکون مل گیا، جس درد کی دوا کا وہ متلاشی تھا، جوہی کی شکل میں وہ اس کے سامنے تھی۔ سمندر اور بوند کا یہ سنگم، سیپ اور موتی کا یہ ملن،ڈالی اور کلی کا یہ رشتہ، ممتا اور معصومیت کا یہ دل نشین ملاپ قدرت کا انوکھا کرشمہ تھا۔
مسافر وقت تیزی سے قدم بڑھاتا رہا، چاہت کا بیج محبت کے پودے میں تبدیل ہو کر وارفتگی اور سپردگی کے پھولوں سے بھر چکا تھا۔ جوہی آنکھ کھولتی تو انجم کی گود میں، انجم سانس لیتی تو جوہی کو دیکھ کر۔ مسز خان محسوس کر رہی تھی کہ ان کے آنگن کا گلاب انجم کے گلدان کی زینت بن رہا ہے۔اس دن تو سچ مچ خار ہی کھا گئی، جب جوہی نے ان کے ساتھ اپنی خالہ کی شادی میں دہلی جانے سے انکار کرتے ہوئے انجم کے پاس رہنا گوارا کر لیا۔ مسز خان نے لاکھ سمجھایا پر وہ نہ مانی، مچل ہی گئی، معصوم صورت فریادی بن گئی، ملتجی نگاہوں سے اس نے انجم کو دیکھا، انجم کہہ اٹھی۔
" جوہی کو چھوڑ دیجئے وہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے، اسے خود سے ایک پل کے لئے بھی الگ نہ کروں گی۔ میری دھڑکن مجھ سے دور ہوسکتی ہے، میری نبض تھم سکتی ہے مگر جوہی میرا سایہ بن کر میرے ساتھ رہے گی۔ "
مسز خان مجبور ہو کر چلی گئیں۔ جو ہی انجم اور آفاق کی نگاہوں کا سرمہ بن گئی۔ دو دن تو آرام سے گذر گئے، لیکن تیسرے دن آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے جو ہی سیڑھیوں پر سے پھسل کر گر پڑی۔ انجم کی روح گھائل ہو ئی اور آفاق درد سے کراہ اٹھا۔ خون میں لت پت جوہی کو ہسپتال لے جا یا گیا وہاں اس کے سر کو ٹانکے دئیے گئے اور خون کی ضرورت در پیش ہو ئی۔ انجم کا بلڈ گروپ جیسے جوہی کے لئے ہی تھا۔ وہ خون دینے تیار ہو گئی۔انجم کا خون بوتل کے سہارے جوہی کے جسم میں دوڑنے لگا۔ انجم محسوس کر رہی تھی جیسے وہ ماں بن گئی ہو اور خون کی شکل میں اس کا دودھ جوہی کے حلق کو تر کر رہا تھا۔
اس نے محسوس کیا کہ آج و ہ بنجر دھرتی نہیں بلکہ زرخیز زمین بن گئی ہو۔ اس نے جانا کہ وہ تخلیق کے کرب سے آشنا ہو چکی ہے۔ اب وہ ایک ایسی ہستی بن گئی ہے، جسے ماں کہا جاتا ہے۔ وہ اس نام کے تقدس او ر آفاقیت میں ڈوب گئی۔
ماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ عظیم ہستی جس کے وجود سے دنیا میں پاکیزگی کا جلوہ ہے، جس کے قدموں پر بادشاہ اور فقیر دونوں ہی کے سر جھکتے ہیں جس کی آنکھوں میں چھپے مہر و وفا کی چمک سے قاتل بھی کانپ جاتا ہے جس کے دست شفقت کے سایے میں گناہ گار بھی پناہ لیتا ہے، یہ سوچ کر انجم کو سکول قلبی مل گیا۔
جو ہی ٹھیک ہو کر گھر آنے کے چار دن بعد ہی مسز خاں دہلی سے واپس آ گئیں انجم کا دل ایک انجانے خوف سے دھڑک اٹھا۔ جوہی کے سر کا زخم اور کمزور چہرہ مسز خان سے پوشیدہ نہ رہ سکا۔ ان کی تیز نظروں نے ایک پل میں سب کچھ بھانپ لیا وہ سیدھے انجم کے کمرے میں چلی آئیں، جوہی اس سے لپٹ کر سو رہی تھی۔ ایک جھٹکے سے انہوں نے جوہی کو انجم سے الگ کر دیا۔ جیسے تنکے تنکے جوڑ کر بنائے گئ آشیاں پر برق گر پڑی ہو۔ جیسے کنارے کر لگتی ہوئی کشتی طوفان میں ڈوب گئی ہو۔ جیسے صحت یاب ہوتے مریض کا گلا کھونٹ دیا گیا ہو۔ انجم اس غیر متوقع حملے کے لئے تیار نہ تھی وہ بوکھلا گئی۔
’’میں نے کہا تھا نا کہ جوہی کو سنبھالنا تمہارے بس کا روگ نہیں۔ آخر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ تمہاری بے پناہ چاہت اور وارفتگی سے میں خوف زدہ ہی تھی۔ آخر کار تمہاری نظر بد نے میری بچی کے چاند سے چہرے پر داغ لگا ہی دیا۔ پیار کے دو میٹھے بول بول کر ہر عورت ماں نہیں بن سکتی۔ مسز آفاق۔ تم کیا جانو ماں کسے کہتے ہیں۔ محبت کے دو جملے تمہیں ماں نہیں بنا سکتے۔ تم اگر سچ مچ جوہی کی ماں ہوتیں تو شاید اس کے سر سے بہتے خون کو دیکھ کر تمہارا لہو پانی بن کر بہہ جاتا۔ تم نے کونسا اسے نو ماہ اپنی کوکھ میں رکھا۔ کونسی تخلیق کا کرب برداشت کیا۔ کونسی جاگ جاگ کر راتیں کاٹیں، کونسا اپنا لہو دے کر پالا۔ میں اس کی ماں ہوں، میں نے اسے جنم دیا ہے، اپنا لہو پلا کر اسے پالا۔ بس یہی فرق ہے، تم میں اور مجھ میں۔ تمہیں کیا پتہ ماں کیسی ہوتی ہے۔۔۔۔ جب لہو کا رنگ دودھ میں بدلتا ہے تبھی ایک عورت ماں بنتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ صبح کی پہلی کرن کی آمد سے پہلے ہی میرے گھر سے چلی جاؤ۔’’
مسز خاں کسی بادل کی طرح گرج کر برس کر چلی گئیں، اور انجم محسوس کر رہی تھی کہ وہ خون جو بوتل کے سہارے جوہی کی رگوں میں پہونچایا گیا تھا صرف پانی تھا صرف پانی، وہ دودھ نہ بن سکا۔ وہ سسک سسک کر رو پڑی۔ شاید مندمل ہوتا زخم پھر سے رسنے لگا تھا۔
٭٭٭