صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


دل کو دیپ کیا

سعد اللہ شاہ

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

غزلیں

روشنی بن کے اندھیروں میں اُتر جاتے ہیں

ہم وہی لوگ ہیں جو جاں سے گزر جاتے ہیں

کتنے کم فہم ہیں یہ، ہم کو ڈرانے والے

وہ کوئی اور ہیں جو موت سے ڈر جاتے ہیں

کربلا والوں کا رستہ ہے ہمارا رستہ

یہ وہ رستہ ہے کہ جس رستے میں سر جاتے ہیں

ان کو معلوم نہیں کس سے ہے نسبت اپنی

جس کی دہلیز پہ سب تاج اتر جاتے ہیں

اُس کے رستے میں لگے زخم بھی دیتے ہیں مہک

اور آنکھوں کو اسی کیف سے بھر جاتے ہیں

سعدؔ ہم سیلِ رواں ہیں، کسے معلوم نہیں

اپنی پہچان ہیں ہم لوگ، جدھر جاتے ہیں

٭٭٭


اس نے حق بات کو لوگوں سے چھپا رکھا ہے

اک تماشا سرِ بازار لگا رکھا ہے

وہ یہ کہتا ہے کہ انصاف ملے گا سب کو

جس نے منصف کو بھی سولی پہ چڑھا رکھا ہے

اس نے چوروں سے سرِ عام شراکت کی ہے

اس نے قاتل کو بھی مسند پہ بٹھا رکھا ہے

اے خدا لوگ تجھے دیکھتے ہیں اور تو نے

ایک فرعون کی مہلت کو بڑھا رکھا ہے

ایک نفرت ہے کہ پروان چڑھی جاتی ہے

ایک طوفاں ہے کہ خلقت نے دبا رکھا ہے

سعدؔ سچ بات چھپائی نہیں جاتی مجھ سے

میں نے سادات کے پرچم کو اٹھا رکھا ہے

٭٭٭

OOO

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول