صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
دھواں اور پھول
صابر ظفر
جمع و ترتیب:اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
گُریز پا ہے جو مجھ سے اُسی کے پاس بہت ہوں
میں اپنے وعدے پہ قائم ہوں اور اُداس بہت ہوں
یہ قید وہ ہے کہ زنجیر بھی نظر نہیں آتی
یہ پیرہن ہے کچھ ایسا کہ بے لباس بہت ہوں
نہیں شریکِ سفر وہ مگر ملال بہت ہے
کہ جس مقام پہ بھی ہوں میں اُس کی آس بہت ہوں
خموش اس لیئے رہتا ہوں میرے سامنے تُو ہے
میں کم سخن سہی لیکن نظر شناس بہت ہوں
کٹا ہے وقت فقط،زندگی نہیں کہ ظفر میں
طلب سے اور تغافل سے روشناس بہت ہوں
٭٭٭
رات کو خواب ہو گئ ، دن کو خیال ہو گئ
اپنے لیے تو زندگی ، ایک سوال ہو گئ
ڈال کے خاک چاک پر ، چل دیا ایسے کوزہ گر
جیسے نمود خشک و تر ، رو بہ زوال ہو گئ
پھول نے پھول کو چھوا ، جشن وصال تو ہوا
یعنی کوئی نباہ کی رسم بحال ہو گئ
تجھ کو کہاں سے کھوجتا ، جسم زمین پہ بوجھ تھا
آخر اس تکان سے ، روح نڈھال ہو گئ
کون تھا ایسا ہمسفر ، کون بچھڑ گیا ظفر
موج نشاط رہ گزر ، وقف ملال ہو گئ
٭٭٭