صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ
مشتاق احمد یوسفی
انتخاب از ’آبِ گم‘
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
نیک چلنی کا سائن بورڈ
اشتہار میں مولوی سیّد محمد مظفّر نے، کہ یہی اسکول کے بانی، منتظم،
مہتمم، سرپرست اور خازن و خائن کا نام تھا نے مطلع کیا تھا کہ امیدواروں
کو تحریری درخواست دینے کی ضرورت نہیں۔ اپنی ڈگری اور نیک چلنی کے
دستاویزی ثبوت کے ساتھ صبح آٹھ بجے اصالتاً پیش ہوں۔ بشارت کی سمجھ میں نہ
آیا کہ نیک چلنی کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ بد چلنی کا البتہ ہو سکتا ہے۔
مثلاً چالان، مچلکہ، وارنٹِ گرفتاری، مصّدقہ نقل حکم سزایابی یا "بستہ
الف" جس میں نامی بدمعاشوں کا اندراج ہوتا ہے۔ پانچ منٹ میں آدمی بد چلنی
تو کرسکتا ہے، نیک چلنی کا ثبوت فراہم نہیں کرسکتا۔ مگر ان کا تردّد بے جا
تھا۔ اس لیے کہ جو حلیہ انھوں نے بنا رکھا تھا، یعنی منڈا ہوا سر، آنکھوں
میں سرمے کی تحریر، اٹنگا پاجامہ، سر پر مخمل کی سیاہ رام پوری ٹوپی، گھر،
مسجد اور محلّے میں پیر پر کھڑاؤں۔۔۔۔۔۔ اس حلیے کے ساتھ وہ چاہتے بھی تو
نیک چلنی کے سوا اور کچھ ممکن نہ تھا۔ نیک چلنی انکی مجبوری تھی، اختیاری
وصف نہیں۔ اور ان کا حلیہ اس کا ثبوت نہیں، سائن بورڈ تھا۔
یہ وہی حلیہ تھا جو اس علاقے میں مڈل کلاس خاندانی شریف گھرانوں کے
نوجوانوں کا ہوا کرتا تھا۔ خاندانی شریف سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں شریف
بننے، رہنے اور کہلانے کے لیے ذاتی کوشش قطعی نہیں کرنی پڑتی تھی۔ مہرِ
شرافت، جائداد اور مذکورہ بالا حلیہ نسلاً بعد نسل اس طرح ورثے میں
ملتے تھے جس طرح ہما شما کوGenes اور موروثی امراض ملتے ہیں۔ عقیدے، مبلغِ
علم اور حلیے کے لحاظ سے پڑپوتا اگر ہو بہو اپنا پڑ دادا معلوم ہو تو یہ
خاندانی نجابت، شرافت اور اصالت کی دلیل تصور کی جاتی تھی۔ انٹرویو کے لیے
بشارت نے اسی حلیے پر صیقل کر کے نوک پلک سنواری۔ اچکن دھلوائی۔ بد رنگ ہو
گئی تھی لہٰذا دھوبی سے کہا ذرا کلف زیادہ لگانا۔ سرپر ابھی جمعے کو"زیرو
نمبر"کی مہین مشین پھروائی تھی۔ اب استرا اور اس کے بعد آم کی گٹھلی
پھروا کر آملہ کے تیل سے مالش کروائی۔ دیر تک مرچیں لگتی رہیں۔ ٹوپی پہن
کر آئینہ دیکھ رہے تھے کہ اندر منڈے ہوئے سر سے پسینہ اس طرح رسنے لگا
جیسے پیشانی پر"وکس"یا"بام"لگانے کے بعد جھڑتا ہے۔ ٹوپی اتارنے کے
بعد پنکھا جھلا تو ایسا لگا جیسے کسی نے ہوا میں پیپر منٹ ملا دیا
ہو۔ یہاں یہ اعتراف غالباً بے محل نہ ہو گا کہ ہم نے اپنا ایشیائی خول
اتار کے یورپ کے رنگ ڈھنگ پہلے پہل"ننگی آنکھ"سے دیکھے تو ہمارے سارے وجود
کو بالکل ایسا ہی محسوس ہوا۔ پھر بشارت نے جوتوں پر تھوک سے پالش کر کے
اپنی پرسنلٹی کو فنشنگ ٹچ دیا۔ سلیکشن کمیٹی کا چیرمین تحصیل دار تھا۔
سننے میں آیا تھا کہ تقرریوں کے معاملے میں اسی کی چلتی ہے۔ پھکڑ، فقرے
باز، ادب دوست، ادیب نواز، ملنسار، نڈر اور رشوت خور ہے۔ گھوڑے پر کچہری
آتا ہے۔ نادم تخلص کرتا ہے۔ آدمی بلا کا ذہین اور طبیعت دار ہے۔ اسے اپنا
طرف دار بنانے کے لیے بادامی کاغذ کا ایک دستہ اور چھ سات نیزے ( نرسل )
کے قلم خریدے اور راتوں رات اپنے کلام کا انتخاب یعنی ستائیس غزلوں کا
گلدستہ مرتب کیا۔ مخمور تخلص کرتے تھے جو ان کے استاد جوہر الٰہ آبادی کا
عطا کردہ تھا۔ اسی کی رعایت سے کلیاتِ نا تمام و بادہ خام کا نام"خمخانہ
مخمور کانپوری ثم لکھنوی"رکھا۔ ( لکھنو کو ان سے صرف اتنی نسبت تھی کہ
پانچ سال قبل اپنا پِتّا نکلانے کے سلسلے میں دو ہفتے وہاں کے اسپتال میں
تقریباً نیم بے ہوشی کی حالت میں قیام فرمایا تھا) پھر اس میں ایک ضخیم
ضمیمہ بھی شامل کر دیا۔
اس ضمیمے کا قصّہ یہ ہے کہ اپنی غزلوں اور اشعار کا انتخاب انھوں نے دل پر
پتھر بلکہ پہاڑ رکھ کر کیا تھا۔ شعر کتنا ہی لغو اور کمزور کیوں نہ ہو اسے
بقلم خود کاٹنا اور حذف کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا اپنی اولاد کو بد صورت
کہنا یا زنبور سے اپنا ہلتا ہوا دانت خود اکھاڑنا۔ غالب تک سے یہ مجاہدہ
نہ ہو سکا۔ کاٹ چھانٹ مولانا فضل حق خیرآبادی کے سپرد کر کے خود ایسے بن
کے بیٹھ گئے جیسے بعض لوگ انجکشن لگواتے وقت دوسری طرف منھ پھیر کے بیٹھ
جاتے ہیں۔ بشارت نے اشعار قلم زد کرنے کو تو کر دیے، مگر دل نہیں مانا۔
چنانچہ آخر میں ایک ضمیمہ اپنے تمام منسوخ کلام کا شامل کر دیا۔ یہ کلام
تمام تر اس دور سے تعلق رکھتا تھا جب وہ بے استادے تھے اور فریفتہ تخلص
کرتے تھے۔ اس تخلص کی صفت یہ تھی کہ جس مصرعے میں بھی ڈالتے، وہ بحر سے
خارج ہو جاتا۔ چنانچہ بیشتر غزلیں بغیر مقطعے کے تھیں۔ چند مقطعوں
میں ضرورتِ شعری کے تحت فریفتہ کا مترادف شیدا اور دلدادہ استعمال کیا اور
صراحتاً اوپر ڈوئی بھی بنا دی، مگر اس سے شعر میں کوئی اور سقم پیدا ہو
گیا۔ بات دراصل یہ تھی کہ غیب سے جو مضامین خیال میں آتے تھے ان کے الہامی
وفور اور طوفانی خروش کو وزن و عروض کے کوزے میں بند کرنا انسان کے بس کا
کام نہ تھا۔
٭٭٭