صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
دیواروں کے بیچ
عبید اللہ علیم
انتخاب کلام: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
وحشت اُسی سے پھر بھی وہی یار دیکھنا
پاگل کو جیسے چاند کا دیدار دیکھنا
اس ہجرتی کو کام ہوا ہے کہ رات دن
بس وہ چراغ اور وہ دیوار دیکھنا
پاؤں میں گھومتی ہے زمیں آسماں تلک
اس طفلِ شیر خوار کی رفتار دیکھنا
یا رب کوئی ستارۂ امّید پھر طلوع
کیا ہو گئے زمین کے آثار دیکھنا
لگتا ہے جیسے کوئی ولی ہے ظہور میں
اب شام کو کہیں کوئی مے خوار دیکھنا
اس وحشتی کا حال عجب ہے کہ اس طرف
جانا بھی اور جانبِ پندار دیکھنا
دیکھا تھا خواب شاعرِ مومن نے اس لیے
تعبیر میں ملا ہمیں تلوار دیکھنا
جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر
ہر صبح اک عذاب ہے اخبار دیکھنا
میں نے سنا ہے قربِ قیامت کا ہے نشاں
بے قامتی پہ جُبّہ و دستار دیکھنا
صدیاں گزر رہی ہیں مگر روشنی وہی
یہ سر ہے یا چراغ سرِ دار دیکھنا
اس قافلے نے دیکھ لیا کربلا کا دن
اب رہ گیا ہے شام کا بازار دیکھنا
دو چار کے سوا یہاں لکھتا غزل ہے کون
یہ کون ہیں یہ کس کے طرفدار دیکھنا
باعثِ ننگ نہیں صرفِ غمِ جاں ہونا
میری قیمت ہے ترے شہر میں ارزاں ہونا
یہ اندھیرے تو سمٹ جائیں گے اک دن اے دوست
یاد آئے گا تجھے مجھ سے گریزاں ہونا
تم مجھے دیکھ کے اس درجہ پریشاں مت ہو
میرے جی کا تو بہلنا ہے پریشاں ہونا
کیسے جیتے ہیں جنھیں طاقتِ اظہار نہیں
اپنے تو درد کا درماں ہے غزل خواں ہونا
مہرباں لوگ مرا نام جو چاہے رکھ لیں
ان کے منہ سے تو مجھے ننگ ہے انساں ہونا
نہ رہا شکوۂ بے مہریِ ایّام کہ اب
اپنی حالت پہ مجھے آ گیا حیراں ہونا
کوئی بتلائے یہ تکمیلِ وفا ہے کہ نہیں
اشک بن کر کسی مژگاں پہ نمایاں ہونا
اُس نے پوچھا ہے بڑے پیار سے کیسے ہو علیمؔ
اے غمِ عشق! ذرا اور فروزاں ہونا
٭٭٭٭٭٭٭٭