صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
دینیات
ابو الاعلیٰ مودودی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اِسلام کی حقیقت
تم دیکھتے ہو کہ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں سب ایک قاعدے اور قانون کی تابع ہیں۔ چاند اور تارے سب ایک زبردست قاعدے میں بندھے ہوئے ہیں جس کے خلاف وہ بال برابر جنبش نہیں کرسکتے۔ زمین اپنی خاص رفتار کے ساتھ گھوم رہی ہے۔ اس کے لیے جو وقت اور رفتار اور راستہ مقرر کیا گیا ہے اس میں ذرا فرق نہیں آتا۔ پانی اور ہوا، روشنی اور حرارت، سب ایک ضابطے کے پابند ہیں۔ جمادات، نباتات اور حیوانات میں سے ہر ایک کے لیے جو قانون مقرر ہے اُسی کے مطابق یہ سب پیدا ہوتے ہیں، بڑھتے ہیں اور گھٹتے ہیں، جیتے ہیں اور مرتے ہیں۔ خود انسان کی حالت پر بھی تم غور کرو گے تو تم کو معلوم ہو گا کہ وہ بھی قانونِ قدرت کا تابع ہے۔جو قاعدہ اس کی زندگی کے لیے مقرر کیا گیا ہے اُسی کے مطابق سانس لیتا ہے، پانی اور غذا اور حرارت اور روشنی حاصل کرتا ہے۔اس کے دل کی حرکت، اس کے خون کی گردش، اس کے سانس کی آمدورفت اسی ضابطے کی پابند ہے۔ اس کا دماغ، اس کا معدہ، اس کے پھیپھڑے، اس کے اعصاب اور عضلات، اس کے ہاتھ پاؤں، زبان، آنکھیں، کان اور ناک، غرض اس کے جسم کا ایک ایک حصہ وہی کام کر رہا ہے جو اس کے لیے مقرر ہے اور اسی طریقہ پر کر رہا ہے جو اس کو بتا دیا گیا ہے۔
یہ زبردست قانون جس کی بندش میں بڑے بڑے سیّاروں سے لے کر زمین کا ایک چھوٹے سے چھوٹا ذرہ تک جکڑا ہوا ہے، ایک بڑے حاکم کا بنایا ہوا قانون ہے ساری کائنات اور کائنات کی ہر چیز اُس حاکم کی مطیع اور فرماں بردار ہے، کیونکہ وہ اسی کے بنائے ہوئے قانون کی اطاعت و فرماں برداری کر رہی ہے۔ اس لحاظ سے ساری کائنات کا مذہب اِسلام ہے۔ کیونکہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ خدا کی اطاعت اور فرماں برداری ہی کو اِسلام کہتے ہیں۔ سورج، چاند اور تارے سب مسلم ہیں۔ زمین بھی مسلم ہے۔ ہوا اور پانی اور روشنی بھی مسلم ہے۔درخت اور پتھر اور جانور بھی مسلم ہیں، اور وہ انسان بھی جو خدا کو نہیں پہچانتا اور خدا کا انکار کرتا ہے، یا جو خدا کے سوا دوسروں کو پوجتا ہے اور خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتا ہے، ہاں وہ بھی اپنی فطرت اور طبیعت کے لحاظ سے مسلم ہے کیونکہ اس کا پیدا ہونا، زندہ رہنا اور مرنا سب کچھ خدائی قانون ہی کے ماتحت ہے۔ اس کے تمام اعضا اور اس کے جسم کا ایک ایک رونگٹے کا مذہب اِسلام ہے۔حتیٰ کہ اس کی وہ زبان بھی اصل میں مسلم ہے جس سے وہ نادانی کے ساتھ شرک اور کفر کے خیالات ظاہر کرتا ہے۔ اس کا وہ سر بھی پیدائشی مسلم ہے جس کو وہ زبردستی خدا کے سوا دوسروں کے سامنے جھکاتا ہے۔ اس کا وہ دل بھی فطرة مسلم ہے جس میں وہ بے علمی کی وجہ سے خدا کے سوا دوسروں کی عزت اور محبت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ سب چیزیں خدائی قانون کی فرماں بردار ہیں اور ان کی ہر جنبش خدا ہی کے قانون کے ماتحت ہوتی ہے۔
اب ایک دوسرے پہلو سے دیکھو۔
انسان کی ایک حیثیت تو یہ ہے کہ وہ دیگر مخلوقات کی طرح قانونِ قدرت کے زبردست قاعدوں سے جکڑا ہوا ہے اور ان کی پابندی پر مجبور ہے۔
دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ عقل رکھتا ہے۔ سوچنے، سمجھنے اور رائے قائم کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ اور اپنے اختیار سے ایک بات کومانتا ہے، دوسری بات کو نہیں مانتا۔ ایک طریقہ کو پسند کرتا ہے، دوسرے طریقہ کو پسند نہیں کرتا۔زندگی کے معاملات میں اپنے ارادے سے خود ایک ضابطہ بناتا ہے یا دوسروں کے بنائے ہوئے ضابطہ کو اختیار کرتا ہے۔ اس حیثیت میں وہ دنیا کی دوسری چیزوں کے مانند کسی مقرر قانون کا پابند نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس کو اپنے خیال ، اپنی رائے اور عمل میں انتخاب کی آزادی بخشی گئی ہے۔
انسان کی زندگی میں یہ دو حیثیتیں الگ الگ پائی جاتی ہیں:
پہلی حیثیت میں وہ دنیا کی تمام دوسری چیزوں کے ساتھ پیدائشی مسلم ہے اور مسلم ہونے پر مجبور ہے۔ جیسا کہ ابھی تم کو معلوم ہو چکا ہے۔
دوسری حیثیت میں مسلم ہونا یا نہ ہونا اس کے اختیار میں ہے اور اسی اختیار کی بنا پر انسان دو طبقوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
ایک انسان وہ ہے جو اپنے خالق کو پہچانتا ہے۔ اس کو اپنا آقا اور مالک تسلیم کرتا ہے اور اپنی زندگی کے اختیاری کاموں میں بھی اُسی کے پسند کیے ہوئے قانون کی فرماں برداری کرتا ہے۔ یہ پورامسلم ہے۔اس کا اِسلام مکمل ہو گیا۔ کیونکہ اب اس کی زندگی سراسر اِسلام ہے۔ اب وہ جان بوجھ کر بھی اُسی کا فرماں بردار بن گیا جس کی فرماں برداری وہ بغیر جانے بوجھے کر رہا تھا۔ اب وہ اپنے ارادے سے بھی اسی خدا کا مطیع ہے جس کا مطیع وہ بلا ارادہ تھا۔ اب اس کا علم سچا ہے کیونکہ وہ اس خدا کو جان گیا جس نے اس کو جاننے اور علم حاصل کرنے کی قوت دی ہے۔ اب اس کی عقل اور رائے درست ہے کیونکہ اس نے سوچ سمجھ کر اُسی خدا کی اطاعت کا فیصلہ کیا جس نے اسے سوچنے سمجھنے اور رائے قائم کرنے کی قابلیت بخشی ہے۔ اب اس کی زبان صادق ہے۔کیونکہ وہ اسی خدا کا اقرار کر رہی ہے جس نے اس کو بولنے کی قوت عطا کی ہے۔ اب اس کی ساری زندگی میں راستی ہی راستی ہے کیونکہ وہ اختیار و بے اختیاری دونوں حالتوں میں خدا کے قانون کا پابند ہے۔ اب ساری کائنات سے اس کی آشتی ہو گئی۔ کیونکہ کائنات کی ساری چیزیں جس کی بندگی کر رہی ہیں اسی کی بندگی وہ بھی کر رہا ہے۔ اب وہ زمین پر خدا کا خلیفہ (نائب) ہے، ساری دنیا اس کی ہے اور وہ خدا کا ہے۔
٭٭٭